کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 39
آٹھویں دلیل : [عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ انہ سئل عن صلاۃ المرأۃ فقال تجتمع و تحتفز] ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عورت کی نماز کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ (سب اعضاء کو) ملا لے اور سرین کے بل بیٹھے۔‘‘ (خواتین کا طریقۂ نماز‘ ص : ۴۲-۴۳) جواب نمبر ۷ اور ۸ : حضرت علی کا پہلا اثر سنن بیہقی کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے۔ لیکن وہاں صرف [فلتضم فخذیھا] کے الفاظ ہیں [فَلْتَحْتَفِزْ] نہیں ہے۔ ثانیاً اس روایت میں حضرت علی سے روایت کرنے والا حارث بن عبداللہ الاعور ہے‘ جس کی بابت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ رفض کے ساتھ متہم ہے‘ علاوہ ازیں اس کی حدیث میں ضعف ہے اور بعض محدثین نے اس کو کَذَّاب کہا ہے۔ (تقریب و تہذیب الکمال‘ ترجمہ حارث بن عبداللہ الاعور) گویا یہ اثر سند کے اعتبار سے ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ آٹھواں اثر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے جس کا کوئی حوالہ درج نہیں ۔ ہم نے اپنے طور پر کچھ مظان دیکھے‘ لیکن یہ اثر نہیں ملا۔ ظاہر بات ہے ایسے اثر کی کیا حیثیت ہے؟ علاوہ ازیں اس میں کس کیفیت کا بیان ہے؟ اس کی بھی وضاحت نہیں ۔ عربی کے جو الفاظ ہیں اس کا ترجمہ تو ہے ’’وہ مجتمع ہو جائے اور سکڑ جائے‘‘ لیکن وہ کب مجتمع ہو اور کب سکڑے؟ اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ مولانا سکھروی صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ ’’(سب اعضاء کو) ملا لے اور سرین کے بل بیٹھے۔‘‘ لیکن یہ ترجمہ الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بہرحال ترجمے اور اس کے مفہوم پر بحث تو بعد کی بات ہے‘ پہلے اس کا حدیث یا صحابی کا اثر (قول) ہونا تو ثابت کیا جائے۔ سجدے کی کیفیت کے بارے میں بالکل واضح فرمانِ رسول اور عمل نبوی : مذکورہ غیر مستند آثارِ صحابہ کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دیکھیے جس میں