کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 38
پر موجود ہیں جن سے حدیث رسول [صَلُّوْاکَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ] کی تائید ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں صحیح بخاری میں حضرت ام درداء کا یہ عمل بھی موجود ہے کہ وہ نماز میں مردوں ہی کی طرح بیٹھتی تھیں [وکانت ام الدردا تجلس فی صلاتھا جلسۃ الرجل] (صحیح بخاری‘ الاذان‘ باب سنۃ الجلوس فی التشھد‘ حدیث : ۸۲۶ کے بعد) ’’حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا اپنی نماز میں اس طرح بیٹھتی تھیں جیسے مرد بیٹھتے ہیں (اور وہ فقیہہ تھیں ۔‘‘) اس سے مراد تشہد میں بیٹھنے کی کیفیت ہے۔ یعنی تشہد وغیرہ میں عورت اور مرد دونوں میں سے کوئی بھی چار زانوں نہیں بیٹھے گا بلکہ دونوں ہی سنت کے مطابق بیٹھیں گے اور سنت کے مطابق بیٹھنا کس طرح ہے؟ وہ امام بخاری نے اس باب کے تحت احادیث سے بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے تشہد میں بیٹھ کر دائیں پیر کو کھڑا رکھنا ہے اور بائیں پیر کو اندر کی طرف موڑنا ہے اور آخری تشہد میں بائیں پیر کو آگے نکالنا ہے اور دائیں پیر کو کھڑا رکھنا اور چوتڑوں پر بیٹھنا ہے۔ اس کو حدیث میں تورُّک سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کو امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب میں لانے سے مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اس مسئلے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ مولانا سکھروی کی ساتویں دلیل : [حدثنا ابو الاحوص عن ابی اسحاق و عن الحارث عن علی رضی اللّٰہ عنہ قال اذا سجدت المرأۃ فلتحتفز ولتضم فخذیھا] ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا جب عورت سجدہ کرے تو سرین کے بل بیٹھے اور اپنی رانوں کو ملا لے۔‘‘