کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 37
کرے؟ تو انہوں نے کہا‘ وہ حدیث ضعیف ہے۔ میں نے یحییٰ سے کہا‘ وہ اسے [اخبرنی] کے لفظ سے روایت کرتا ہے‘ انہوں نے کہا پھر بھی وہ کچھ نہیں ‘ عطاء سے بیان کردہ سب روایات ضعیف ہیں ۔‘‘ (دیکھیے ’’تہذیب الکمال‘‘ للمزی‘ ج : ۱۲‘ ص : ۶۰-۶۳‘ دارالفکر‘ بیروت‘ لبنان) اس صراحت کی رُو سے یہ دوسرا اثر (قول تابعی) بھی غیر صحیح ہے کیونکہ یہ ایک تو لفظ قال سے ہے۔ دوسرے‘ یہ عطاء سے بیان کرتا ہے‘ اور ابن جریج کی وہ روایت جو وہ عطاء سے کرے‘ چاہے [اَخْبَرَنِیْ] سے ہی کرے‘ وہ کسی کام کی نہیں ۔ علاوہ ازیں اسی بات اور اسی صفحے پر دو اثر اور ہیں ‘ ان سے عورت کے لیے بھی ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھانے ہی کا اثبات ہوتا ہے‘ ملاحظہ فرمائیے! حضرت عبدربہ بن زیتون کہتے ہیں : [رأیت ام الدرداء ترفع کفیھا حذو منکبیھا حین تفتتح الصلاۃ فاذا قال الامام‘ سمع اللّٰہ لمن حمدہ رفع یدیھا‘ قالت اللھم ربنا لک الحمد] ’’میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتیں تو اپنی ہتھیلیاں ‘ اپنے کندھوں تک اٹھاتیں ۔ اور جب امام (رکوع سے اٹھتے ہوئے) [سمع اللّٰہ لمن حمدہ] کہتا‘ تو اپنے ہاتھ (کندھوں تک) اٹھاتیں (یعنی رفع الیدین کرتیں ) اور کہتیں ‘اللّٰہم ربنا لک الحمد۔‘‘ دیکھیے اس اثر میں ایک صحابیہ کا وہ عمل بیان ہو رہا ہے جس میں اہلحدیث کے موقف کی واضح تائید ہے۔ دوسرا اثر ہے۔ اس میں امام اوزاعی‘ امام زہری سے روایت کرتے ہیں کہ امام زہری نے کہا۔ ترفع یدیھا حذومنکبیھا ’’عورت اپنے ہاتھ اپنے کندھوں تک اٹھائے۔‘‘ اس میں بھی اہلحدیث ہی کی تائید ہے۔ یہ دونوں اثر مصنَّف ابن ابی شیبہ کے اسی صفحے