کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 34
للرجال والتصفیق للنساء] (ترمذی‘ صفحہ : ۸۵‘ سعید کمپنی‘ مسلم شریف‘ صفحہ : ۱۸۱‘ ج : ۱) ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (کہ اگر نماز کے دوران کوئی ایسا امر پیش آ جائے جو نماز میں حارج ہو تو) مردوں کے لیے یہ ہے کہ وہ تسبیح کہیں اور عورتیں صرف تالی بجائیں ۔‘‘ جواب یہ حدیث صحیح ہے‘ اس لیے اس میں مرد اور عورت کے لیے جو فرق بتلایا گیا ہے‘ اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ جب عورتیں بھی مسجد میں مردوں کے ساتھ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں ۔ جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں بھی مسجد نبوی میں آ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھتی تھیں ۔ مردوں کی صفیں آگے ہوتی تھیں اور عورتوں کی صفیں پیچھے۔ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ امام بھول جائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے مرد سبحان اللہ کہیں ۔ اور مردوں میں سے کوئی نہ بولے تو عورتیں تالی بجا کر امام کو متنبہ کریں ۔ لیکن ہم مولانا سکھروی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ اس حدیث کو مانتے ہیں ؟ ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ اس صحیح حدیث کو نہیں مانتے۔ کیونکہ اس حدیث کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو بھی مسجد میں آ کر نماز باجماعت پڑھنے کی اجازت ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ اجازت دی ہے‘ اسی لیے آپ نے مذکورہ حکم بھی بیان فرمایا۔ لیکن فقہ حنفی میں یہ اجازت ہی نہیں ہے کہ عورت مسجد میں آ کر باجماعت نماز پڑھے۔ جب ایسا ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ احناف اس حدیث کو نہیں مانتے۔ لیکن اہلحدیث الحمد للہ مانتے ہیں ۔ چھٹی دلیل : [قال ابوبکر بن ابی شیبۃ سمعتُ عطاء سئل عن المرأۃ کیف ترفع یدیھا