کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 33
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نماز کے دوران میں جب عورت بیٹھے تو اپنی ایک ران کو دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ میں جائے تو اپنے پیٹ کو اپنی دونوں رانوں سے ملا لے اس طرح کہ اس سے زیادہ سے زیادہ ستر ہو سکے اور اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! تم گواہ رہو‘ میں نے اس عورت کی بخشش کر دی۔‘‘(خواتین کا طریقۂ نماز ‘ ص : ۴۰‘ ۴۱) جواب سبحان اللہ! اس حنفی طریقۂ نماز کی کتنی فضیلت ہے؟ لیکن مولانا سکھروی صاحب نے اتنی ’’اہم حدیث‘‘ کا کوئی حوالہ ہی نہیں دیا اور اسے بغیر حوالے کے اس کتاب میں نقل کر دیا ہے۔ ایسا کیوں کیا گیا ہے؟ ہمارے خیال میں اس کی وجہ اس کا حدیث رسول نہ ہونا ہے۔ کیونکہ یہ روایت سنن الکبریٰ للبیہقی میں موجود ہے لیکن امام بیہقی نے اس کی بابت کہا ہے۔ [لا یحتج بامثالھا] ’’یہ سخت ضعیف ہے اس جیسی روایت سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اس روایت کے سب سے اہم راوی ابو مطیع الحکم بن عبداللہ کی بابت کہا ہے: ’’اس کی حدیثیں واضح طور پر ضعیف ہوتی ہیں اور اس کی اکثر روایت کردہ حدیثوں کی متابعت نہیں کی جاتی۔ اسے امام یحییٰ بن معین وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘ اس روایت کی بابت یہ ساری تفصیل اسی جگہ پر موجود ہے جس جگہ سے اسے نقل کیا گیا ہے اور وہ ہے امام بیہقی کی السنن الکبریٰ‘ ج : ۲‘ ص : ۲۲۲‘ ۲۲۳‘ طبع قدیم اور طبع جدید کا صفحہ ہے ۳۱۴‘ ۳۱۵‘ ج : ۲- لیکن مولانا سکھروی صاحب نے اس کا حوالہ دینا ہی مناسب نہیں سمجھا۔ اس کی وجہ وہی ہے جو ہم نے بیان کی۔ پانچویں دلیل: [عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم التسبیح