کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 31
وسلم: یا وائل بن حجر! اذا صلّیت فاجعل یدیْکَ حذاء اذنیک والمرأۃ تجعل یدیھا حذاء ثدییھا] ’’حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا طریقہ سکھایا‘ تو فرمایا کہ اے وائل بن حجر! جب تم نماز شروع کرو تو اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھ چھاتیوں تک اٹھائے۔‘‘ (مجمع الزوائد‘ ص : ۱۰۳‘ ج:۲) - (خواتین کا طریقۂ نماز) جواب یہ حدیث‘ واقعی محولہ کتاب میں موجود ہے۔ لیکن وہاں اس حدیث کے بعد یہ الفاظ بھی موجود ہیں ۔ (وفیہ) ام یحییٰ بنت عبدالجبار لم اعرفھا۔ ’’اس روایت کی سند میں ایک راویہ ام یحییٰ ہے جسے میں نہیں جانتا۔‘‘ موصوف کی علمی دیانت دیکھیے کہ وہاں ‘ جہاں سے انہوں نے یہ نقل کی ہے‘ یہ صراحت موجود ہے کہ اس میں ایک راویہ مجہول ہے۔ اس کے بعد اسے حدیث رسول کہہ کر بیان کر دیا ہے۔ حالانکہ جس سند میں ایک راوی بھی مجہول ہو‘ وہ حدیث ناقابل حجت ہوتی ہے۔ اس کو استدلال میں پیش کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اور یہ اصول موصوف کو بھی معلوم ہے‘ اسی لیے انہوں نے یہ چابک دستی کی کہ صاحب کتاب علامہ ہیثمی نے تو اس کی اسنادی حیثیت کو واضح کر دیا‘ لیکن موصوف نے اسے حذف کر دیا۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے ؎ ہیں کواکب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا اسے حدیث رسول کہنا اور اس سے مسئلہ ثابت کرنا‘ بڑی دیدہ دلیری اور نہایت شوخ چشمانہ جسارت ہے۔ ع یہ انہی کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں زیاد تیسری دلیل : [عن یزید بن حبیب ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مَرّ علی امرأتین