کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 29
المبارک کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن ان دونوں کے احکام کے درمیان کوئی فرق بیان نہیں کیا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک مومن مرد روزہ رکھے گا‘ بالکل اسی طرح ایک مومن عورت بھی روزہ رکھے گی۔ لیکن کچھ لوگ عورت کے لیے مرد سے مختلف احکام گھڑ لیں ۔ اس کی دلیل ان سے پوچھی جائے تو وہ کہیں کہ عورتوں کے روزے رکھنے کا طریقہ بالکل مردوں کی طرح ہونا کسی بھی حدیث سے صراحۃً ثابت نہیں ہوتا۔ ایمانداری سے فرمائیے‘ یہ کوئی دلیل ہے؟ یا اس ’’دلیل‘‘ سے مرد و عورت کے درمیان خود ساختہ فرق ثابت ہو جائے گا؟ فرق تو تب ثابت ہو گا جب آپ نصوصِ شریعت (قرآن کریم یا احادیث) سے اس فرق کو ثابت کریں گے۔ بنابریں اگر مولانا موصوف کا یہ دعویٰ صحیح ہوتا کہ ’’خواتین کا طریقۂ نماز‘ مردوں کے طریقے سے جدا ہونا بہت سی احادیث اور آثار صحابہ و تابعین سے ثابت ہے۔‘‘ تو پھر ان کو الفاظ کے یہ طوطا مینا اڑانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ لیکن چونکہ ان کو اپنی پیش کردہ احادیث کی حقیقت کا علم ہے‘ گو وہ اپنے عوام کو اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں ‘ اس لیے وہ مختلف قسم کی سخن سازی پر مجبور ہیں ۔ تیسرا دعویٰ ان کا ہے کہ چاروں ائمہ فقہ اس بات پر متفق ہیں ۔ اس دعوے کو بھی ثابت کرنے کے لیے موصوف نے جو کرتب دکھائے ہیں اور جس بازی گری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کو ہم اس کے مقام پر‘ جب اس دعوے کی حقیقت پر گفتگو ہو گی‘ واضح کریں گے۔ احادیث و آثارِ صحابہ و تابعین کی اصل حقیقت اب ہم سب سے پہلے ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں جو انہوں نے احادیث و آثارِ صحابہ کے نام سے پیش کیے ہیں ۔ لیجیے ملاحظہ فرمائیے اور ان کی خوفِ الٰہی سے بے نیازی پر بھی خون کے آنسو روئیے۔