کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 28
’’اے ایمان والو! ان کافروں سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں ۔‘‘ اس میں اہل ایمان سے خطاب کر کے ان کو جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ حکم چونکہ مرد کے دائرئہ عمل سے تعلق رکھتا ہے‘ اس لیے اس حکم کی مخاطَب مومن عورتیں نہیں ہیں ۔ وعلیٰ ھذا القیاس دیگر احکام و مسائل ہیں۔ اس بنیادی نکتے کی روشنی میں ہم عرض کریں گے کہ نماز ایک عبادت ہے‘ اس کا حکم مرد و عورت دونوں کو ہے‘ دونوں اس کو ادا کرنے کے پابند ہیں ۔ یہ دونوں نماز کس طرح ادا کریں گے ؟ بالکل اس طرح‘ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ادا کیا ہے یا ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ادائیگی کے طریقے میں دونوں کے درمیان کوئی فرق کرنا جائز نہیں ہو گا‘ سوائے اس فرق کے جس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں ملے گی۔ اور حدیث رسول میں ہمیں سوائے اِن فروق کے اور کوئی فرق نہیں ملتا۔ وہ فرق حسب ذیل ہیں ۔ 1. عورت‘ سر ڈھانپ کر نماز پڑھے۔ 2. عورت سبحان اللہ کہنے کی بجائے تصفیق کرے۔ 3. عورت کے لیے مسجد میں آ کر باجماعت نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ 4. عورت مردوں کی امامت نہیں کرا سکتی۔ اس لیے مولانا سکھروی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’عورتوں کی نماز کا طریقہ‘ بالکل مردوں کی طرح ہونا کسی بھی حدیث سے صراحۃً ثابت نہیں ہے۔‘‘ بڑا عجیب ہے۔ کیونکہ اس کی صراحت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جب شریعت نے دونوں کے درمیان فرق کیا ہی نہیں ہے‘ تو صاحب شریعت یہ کس طرح فرما سکتے تھے کہ عورتوں کا طریقۂ نماز بالکل مردوں کی طرح ہے۔ اس کی مثال اس طرح سمجھی جا سکتی ہے‘ شریعت نے مرد اور عورت دونوں کو رمضان