کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 27
مخاطَب سمجھے جائیں گے۔ ایمان و اعتقاد‘ عبادات اور اخلاقیات کی تمام تعلیمات‘ اسی تیسری قسم میں داخل ہیں اور دونوں ہی ان کے یکساں طور پر مکلف اور مخاطَب ہیں ۔ الا یہ کہ شریعت ان میں سے کسی حکم سے کسی ایک کو مستثنیٰ کر دے۔ جب تک کوئی استثناء کسی صحیح دلیل (قرآن کی آیت یا صحیح حدیث) سے ثابت نہیں ہو گا‘ مرد و عورت دونوں کے لیے ایک ہی حکم ہو گا۔ جیسے اقیموا الصلوۃ و آتوا الزکوٰۃ میں نماز و زکوٰۃ کا حکم ہے‘ اس میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں ۔ اس لیے دونوں ہی اس کے مکلف ہیں اور ان کا طریقۂ ادائیگی بھی دونوں کے لیے یکساں ہو گا جب تک کسی ایک صنف کے لیے کوئی خاص استثناء ثابت نہیں ہو گا۔ جیسے عورت کے لیے استثناء ہے کہ حیض و نفاس کے ایام میں اس کے لیے نماز معاف ہے‘ نماز میں سر کا ڈھانپنا اس کے لیے ضروری ہے۔ امام بھول جائے تو امام کو متنبہ کرنے کے لیے مرد سبحان اللہ کہے اور عورت تصفیق کرے (یعنی ہتھیلی پر ہتھیلی مارے‘ سبحان اللہ نہ کہے) یا اور بھی جو استثناء ثابت ہے‘ اس میں فرق ہو گا‘ اس کے علاوہ کوئی فرق نہیں ہو گا۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ ﴾ ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے۔‘‘ آمنوا اور علیکم‘ دونوں جمع مذکر کے صیغے ہیں ‘ اس کے باوجود اس کے مخاطب صرف مومن مرد ہی نہیں ‘ مومن عورتیں بھی ہیں ۔ دونوں کے لیے رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں ۔ الایہ کہ کسی کے لیے استثناء ثابت ہو۔ اس حکم صیام میں عورت کے لیے یہ استثناء ثابت ہے کہ وہ حیض و نفاس کے ایام میں روزے نہیں رکھ سکتی۔ اس کے علاوہ وہ روزے کے دیگر احکام میں مرد کے ساتھ شامل ہو گی۔ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ الْكُفَّارِ ﴾ (التوبۃ : ۱۲۳)