کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 26
کو سمجھنے کے لیے ایک بنیادی نکتے کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسلام کی رُو سے عورت کا دائرئہ کار گھریلو امور خانہ‘ حمل و رضاعت اور بچوں کی نگرانی و حفاظت تک محدود ہے۔ اور مرد کا دائرہ کار معاشی جدوجہد اور تمام بیرونی معاملات (سیاست‘ امور جہانبانی‘ جہاد و قتال وغیرہ) تک وسیع ہے۔ اس لیے شریعت نے مرد و عورت دونوں کو ان کی الگ الگ ذمے داریوں اور طبعی اوصاف کا لحاظ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے مختلف احکام بھی دیے ہیں ۔ لیکن جہاں جداگانہ صلاحیتوں اور اسی کے حساب سے مختلف فرائض کا مسئلہ نہیں ہے‘ وہاں ان دونوں کے لیے مشترکہ احکام بھی دیے ہیں ۔ اس اعتبار سے احکام کی تین صورتیں بنتی ہیں ۔ ۱- وہ احکام‘ جن کا تعلق مرد کے دائرئہ عمل اور اس کی منفرد خصوصیات اور صلاحیتوں اور اس کے خاص فرائض و واجبات سے ہے۔ ۲- وہ احکام‘ جن کا تعلق عورت کے دائرئہ عمل اور اس کی صنفی خصوصیات اور اس کے خاص فرائض و واجبات سے ہے۔ ۳- وہ احکام‘ جن کا تعلق کسی بھی خصوصی صنف یا اس پر مبنی مسائل سے نہیں ہے‘ بلکہ وہ عام ہیں جن کو مرد و عورت دونوں یکساں طور پر کر سکتے ہیں۔ کسی کی بھی صنفی خصوصیات ان کے کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتیں ‘ اس لیے شریعت نے بھی ان کے لیے الگ الگ احکام تجویز نہیں کیے۔ اوّل الذکر قسم کے احکام کے مکلف صرف مرد ہیں اور ان میں مخاطَب بھی وہی سمجھے جائیں گے۔ ثانی الذکر قسم کے احکام کی مکلف صرف عورتیں ہیں اور ان میں مخاطَب وہی سمجھی جائیں گی۔ البتہ ثالث الذکر قسم کے احکام کے دونوں ہی مکلف اور دونوں ہی ان کے