کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 23
اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا صحیح ہے؟ اس سے استدلال کرنا صحیح ہے؟ کیا یہ دھوکہ اور فریب نہیں ؟ دھوکہ اور فریب کے متعلق ذرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور آپ کا فرمان تو دیکھیے۔ آپ غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے‘ آپ نے اس میں ہاتھ ڈالا‘ تو آپ کی انگلیوں کو تری محسوس ہوئی۔ آپ نے اس کے مالک سے پوچھا‘ اس کے اندر والے حصے میں یہ تری کیوں ہے؟ اس نے کہا: بارش کی وجہ سے۔ آپ نے فرمایا: ’’تو نے اس تر حصے کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں ۔‘‘ پھر فرمایا: [مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنّی] (صحیح مسلم‘ الایمان‘ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من غشنا فلیس منا‘ حدیث : ۱۰۲) ’’جس نے دھوکہ دیا‘ اس کا تعلق مجھ سے نہیں ۔‘‘ یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ دنیا کے معمولی سامان میں دھوکہ دینے والے کی بابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی سخت وعید بیان فرمائی‘ تو جو شخص دین و ایمان کے بارے میں دھوکے اور جعل سازی سے کام لے‘ وہ کتنا بڑا مجرم ہو گا؟ بہ ایں دعویٰ زہد و تقویٰ اور ادعائے علم و فضل اس کا کوئی تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو سکتا ہے؟ راقم اس کی نفی نہیں کرتا‘ لیکن مذکورہ حدیث رسول کی روشنی میں یہ نکتہ ضرور قابل غور ہے؟ اور راقم علمی خیانت (دھوکہ دہی) کرنے والے علماء کو دونوں حدیثوں پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ کیا ان کا طرز عمل [مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ متعمدًا] (الحدیث) اور [مَنْ غَشّ] (الحدیث) کی وعید کا مستحق نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو قابل اطمینان بات ہے‘ لیکن اس کی وضاحت فرمائیں کہ کیوں نہیں ہے؟ ان تمہیدی گزارشات کے بعد ہم اب مولانا عبدالرؤف سکھروی صاحب نائب مفتی