کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 22
تو دوسرے صاحب شاگرد۔ ایک دارالعلوم کے مفتی اور ناظم ہیں تو دوسرے ان کے نائب مفتی‘ ایک بزرگ ہیں تو دوسرے ان کے عزیز موصوف۔ لیکن شاگرد‘ نائب اور عزیز نے بددیانتی اور علمی خیانت کے ارتکاب میں استاذ اور بزرگ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اور یوں -آنچہ پدر نہ تواند ‘ پسر تمام کند- کے مقولے پر عمل ہو گیا ہے۔ یہ وضاحت‘ اگرچہ ہمارے لیے نہایت ناخوشگوار اور سخت روح فرسا ہے۔ بالخصوص موجودہ حالات میں ‘ جب کہ ملک و ملت کو اتحاد و یک جہتی کی سخت ضرورت ہے‘ لیکن جب جانتے بوجھتے‘ دن کی روشنی میں اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا جائے اور اس کا ارتکاب بھی ان لوگوں کی طرف سے ہو جو منبر رسول کے وارث کہلاتے ہیں ‘ مدعیانِ زہد و تقویٰ ہیں ‘ اصحابِ جُبّہ و دستار ہیں ۔ حاملینِ علم نبوت ہیں ‘ مسند نشینانِ افتاء و تحقیق ہیں اور شیخ الحدیث جیسے منصب جلیلہ پر فائز ہیں ۔ لیکن کام بازی گروں والا‘ علمی دیانت کا خون کر کے دھوکہ و فریب دینا‘ حدیث رسول کے نام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنا جو آپ سے ثابت ہی نہیں ہیں ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے: [مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ] (صحیح بخاری‘ احادیث الانبیاء‘ حدیث : ۳۴۶۱) ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا‘ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔‘‘ اور وہ حدیث‘ جس کو اپنی کتاب میں درج کرنے والا اس لیے درج کر رہا ہے تاکہ لوگوں کے علم میں آ جائے کہ یہ سخت ضعیف ہے‘ ناقابل حجت ہے‘ اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اتنی واضح صراحت کے باوجود ایک شیخ الحدیث کہلانے والا‘ صاحب کتاب محدث کی اس صراحت کو تو نقل نہیں کرتا‘ لیکن اسے اپنے مسلک کے اثبات کے لیے حدیث رسول کہہ کر نقل کرتا ہے اور اس سے استدلال کرتا ہے۔ فرمائیے! کیا اس کا