کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 20
لکھی ہے جو قابل مطالعہ ہے۔ ہم بغرض اختصار یہاں صرف اس کے حوالے پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔ (التعلیق الممجد ص ۱۴۴) اسی طرح موصوف نے لا تجتمع امتی علی ضلالۃ بھی پیش فرمائی ہے اس کی اسنادی حیثیت سے قطع نظر بفرض صحت و حجت اس امت سے بھی مراد قرنِ اوّل کی امت یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہیں نہ کہ آج کل کی امت- جس کا سارا دین، بجز ایک گروہ حق کے‘ خود ساختہ ہے اور جس کے اندر شرک و بدعت کی گرم بازاری ہے اگر مفتی صاحب آج کل کی امت کے متعلق بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ گمراہی پر مجتمع نہیں ہو سکتی تو وہ کیوں اپنے ہی حنفی بھائیوں (بریلویوں ) سے برسرِ پیکارہیں ؟ اکثریت ان کی ہے۔ کیا اس ’’دلیل‘‘ کی رو سے بریلوی عقائد و اعمال کو سندِ جواز عطا نہیں کیا جا سکتا؟ بہرحال مفتی صاحب جو مختلف قسم کے سہارے اپنے موقف میں پیش فرما رہے ہیں اس سے از خود یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ موصوف کے پاس اپنے موقف (کہ عورت کا طریقۂ نماز مردوں سے مختلف ہے) کے ثبوت کے لیے کوئی واضح دلیل اور مرفوع حدیث نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مفتی صاحب سہارے نہ ڈھونڈتے ، حدیث صحیح پیش فرمانے پر ہی اکتفا کر لیتے۔ لیکن مذکورہ بحث سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ موصوف کے پاس فقہ حنفی کے زیر بحث مسئلے کے ثبوت میں ایک بھی مرفوع متصل روایت نہیں ہے۔ ھا توا برھانکم ان کنتم صادقین۔ (اگر سچے ہو‘ تو دلیل پیش کر کے دکھاؤ) (منقول از ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور ۲۲ - ۲۹ جنوری ۱۹۸۲ء)