کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 19
تعامل بھی کیا اس ’’تعامل امت‘‘ کے ضمن میں آتا ہے جس کو دلیل شرعی قرار دیا جا سکے؟ اگر مفتی صاحب موصوف کے نزدیک ’’تعامل امت‘‘ سے مراد تعامل صحابہ رضی اللہ عنہم ہے (جیسا کہ یہی اس کا صحیح مفہوم ہے) تو کیا موصوف اس امر کا کوئی ثبوت پیش فرما سکیں گے کہ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں مسلمان خواتین اسی طرح مردوں سے مختلف طریقے سے نماز پڑھتی تھیں ۔ جس طرح آج کل کی حنفی اور شریعت سے ناواقف عورتیں پڑھتی ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر مسئلہ ضرور قابل غور بن جاتا ہے۔ اور اگر تعامل امت سے مراد عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے بعد کے لوگوں کا تعامل ہے تو محترم مفتی صاحب اسے بطور ’’دلیل شرعی ‘‘ پیش کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ پھر مسئلہ زیر بحث ہی ثابت نہیں ہوگا۔ بے شمار بدعتیں بھی ثابت ہو جائیں گی۔ جن پر آج کل ’’تعامل امت‘‘ ہے۔ کیا مفتی صاحب اس کے لیے تیار ہیں ؟ کیا ان تمام بدعتوں کو اس ’’دلیل شرعی‘‘ کی رو سے سند جواز عطا کیا جاسکتا ہے؟ مارآہ المسلمون … سے استدلال؟ : اسی تعامل امت کے سلسلے میں مفتی صاحب موصوف نے اس مشہور روایت سے بھی استدلال کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہے یعنی مَارَآہ الْمُسْلمونَ حَسَنًا فَھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ ’’جس عمل کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے‘‘ حالانکہ اوّل تو یہ حدیث مرفوع ثابت ہی نہیں ہے۔ یہ ایک موقوف قول ہے۔ ثانیاً یہ کسی درجہ میں قابل حجت بھی ہو تب بھی اس سے مراد عہدِ صحابہ ہی ہوگا اور قرنِ اوّل کے مسلمانوں کا تعامل ہی حَسن اور قابل عمل کہلائے گا‘ نہ کہ بعد کے مسلمانوں کا عمل ، جو عموماً اعتقاد و عمل کی متعدد گمراہیوں میں مبتلا چلے آ رہے ہیں۔ یہی بات مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی مرحوم نے بھی التعلیق الممجد میں بڑی تفصیل سے