کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 18
نہیں کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہو بلکہ کسی اور صحابی سے بھی ثابت ہو سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی حدیث ثابت ہو لیکن ہمیں نہ مل سکی ہو۔‘‘ بلاشبہ حکم شرعی کے اثبات کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی حدیث ضروری نہیں ، بلکہ کسی بھی صحابی ٔرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث (صحیح) سے حکم شرعی ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن سائلہ کا یہ سوال بہرحال ضرور قابل غور ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دو ہزار سے زائد احادیث مروی ہیں ، اگر عورتوں کے لیے نماز کا طریقہ مردوں سے مختلف ہوتا‘ تو یقینا ان سے اس انداز کی کوئی حدیث ضرور مروی ہوتی۔ اسی طرح یہ بھی قابل غور پہلو ہے کہ اتنا اہم اور عامۃ الورود مسئلہ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت کسی بھی صحابی سے اس کی بابت کوئی حدیث ثابت نہیں ۔ یہ کہنا کہ ’’ممکن ہے کہ اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کوئی حدیث ثابت ہو لیکن ہمیں نہ مل سکی ہو۔‘‘ استدلال کا یہ کون سا انداز ہے؟ اس طرح تو ہر من گھڑت مسئلے کو یہ کہہ کر ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ممکن ہے اس بارے میں حدیث تو ہو، لیکن ہمیں نہ مل سکی ہو۔ ’’تعامُلِ امت‘‘ سے استدلال؟: پھر لکھتے ہیں : ’’اس کے علاوہ تعامل امت سے بھی عورتوں کی نماز کی مذکورہ بالاکیفیات ثابت ہیں اور تعامل امت بھی دلیل شرعی ہے۔‘‘ لیکن مفتی صاحب سے ہم یہ پوچھنا چاہیں گے کہ ’’تعامل امت‘‘ سے ان کی کیا مراد ہے؟ موجودہ لوگوں (امت) کا تعامل یا عہد صحابہ کا تعامل۔ عہد صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں تو دلیل شرعی کی بات ہو سکتی ہے اور اسے ہی تعامل امت کہا جاتا ہے۔ لیکن بعد کے ادوار کا