کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 17
ناطقہ سربگر یباں ہے، اسے کیا کہیے؟ اور یہ قعدہ والی حدیث؟ : مفتی صاحب لکھتے ہیں : ’’اسی طرح قعدہ کے سلسلے میں بیہقی کی روایت ہے کہ ایک ران پر دوسری ران رکھ کر بیٹھے۔ [عن عبداللّٰہ بن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا جلست المرأۃ فی الصلٰوۃ وضعت فخذھا علی فخذھا۔] لیکن آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ یہ بھی اسی حدیثِ مذکور کا ایک ٹکڑا ہے جسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے صرف لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے اپنی کتاب میں درج کیا ہے کہ یہ روایت کسی کام کی نہیں ہے‘ اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مفتی صاحب نے از خود سنن بیہقی کا مطالعہ نہیں کیا اور اپنے کسی ہم مذہب پیشرو کا کوئی فتویٰ یا مضمون دیکھ کر مکھی پر مکھی دے ماری ہے ورنہ اتنی صریح خیانت کا تصور ایک اتنے بڑے دارالعلوم کے شیخ الحدیث اور مفتی کے متعلق نہیں کیا جاسکتا۔ بہرحال مذکورہ حدیث نقل کرنے کے بعد مفتی صاحب فرماتے ہیں : ’’ان احادیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ عورتوں کی نماز کے بارے میں فقہاء نے جو مخصوص صورتیں بیان فرمائی ہیں وہ احادیث سے ثابت ہیں ۔‘‘ لیکن موصوف کی بیان کردہ ’’احادیث‘‘ کی حقیقت اوپر بیان کر دی گئی ہے جس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ فقہائے احناف نے عورتوں کے لیے مردوں سے الگ جو صورتیں بیان کی ہیں وہ ان کی اپنی ایجاد کردہ ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ کچھ اور دلائل اور وضاحتیں : اس کے بعد مفتی صاحب فرماتے ہیں : ’’یہ بات واضح رہے کہ عورتوں کے بارے میں حکم شرعی کے ثبوت کے لیے یہ ضروری