کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 15
یؤمن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ بل ینبغی ان یفعل ذلک۔ (فتح الغفور - ص ۸ طبع ملتان) ’’بیان متذکرہ بالا سے بخوبی واضح ہو گیا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی بنیاد (روایت) مضبوط اور دلیل واضح ہے اور ہر اہل ایمان کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ اس سے روگردانی کرے اور مسلمان ایسی چیز سے روگردانی کیونکر کر سکتا ہے جو کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی ہے کہ ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش میری لائی ہوئی شریعت کے مطابق نہ ہوجائے۔‘‘ پس ہر مسلمان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرنا چاہیے۔‘‘ ۴۔ شاہ نعیم اللہ بہرانچی ، مرزا مظہر جان جاناں رحمہ اللہ حنفی کے معمولات میں لکھتے ہیں : [ودست را برابر سینہ می بستند و می فرمودند کہ ایں روایت ارجح است از روایات زیر ناف۔] ( ص ۷۵) یعنی ’’مرزا مظہر نماز میں سینے پر ہاتھ باندھاکرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی روایت زیر ناف باندھنے کی روایت سے زیادہ راجح ہے۔‘‘ خود حنفی علماء کی تصریحات سے جب یہ ثابت ہوتا ہے کہ تحت السرۃ والی روایت ضعیف اور سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت صحیح اور راجح ہے تو اس کے بعد مفتی صاحب کی مذکورہ تطبیق کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ بہر حال اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مرد و عورت کے درمیان نماز میں ہاتھ باندھنے کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ صحیح روایات کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ہاتھ سینے پر باندھے ہیں اور اس کی بابت عورتوں کے لیے کوئی الگ حکم بھی ثابت نہیں ہے۔