کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 14
قول علی بن ابی طالب و اسنادہ الی النبی صلی اللَّہ علیہ وسلم غیر صحیح …… فیہ مقال لان فی سند ہ عبدالرحمن بن اسحٰق الکوفی قال احمد لیس بشیء منکر الحدیث] (عمدہ القاری ، ج ۵ ، ص ۲۷۹ ، طبع جدید) یعنی ’’صاحب ہدایہ نے ہمارے احناف کے مسلک پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے استدلال کیا ہے جس میں زیر ناف ہاتھ باندھنے کو سنت کہا گیا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کی اسناد نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک صحیح ثابت نہیں ہے اس روایت میں مقال ہے اس لیے کہ اس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق کوفی ہے جس کے متعلق امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وہ کچھ نہیں اور وہ منکر الحدیث ہے۔‘‘ ۲۔ شیخ ابراہیم حلبی غنیۃ المستملی فی شرح منیۃ المصلی (المعروف شرح کبیری) میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زیر بحث روایت کے بارے میں لکھتے ہیں : [قال النووی اتفقوا علی تضعیفہ لانہ من روایۃ عبدالرحمن بن اسحٰق مجمع علی تضعیفہ ۔] (کبیری - ص ۲۹ ۔ طبع مجتبائی دہلی ۱۸۹۸ء) یعنی ’’بقول امام نووی رحمہ اللہ اس روایت کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے کیونکہ اس میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی راوی ہے جو بالاتفاق ضعیف ہے۔‘‘ ۳۔ مولانا محمد حیات سندھی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : [بما تقدم و تقرران وضع الایدی علی الصدور فی الصلوٰۃ اصلاً اصیلاً و دلیلاً جلیلاً فلا ینبغی لاھل الایمان الاستنکاف عنہ و کیف یستنکف المسلم عما ثبت عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الذی قال لا