کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 13
بظاہر متعارض ہوں ) سنداً صحیح ہوں ۔ اگر دو متعارض روایات ایسی ہوں کہ سنداً ایک صحیح ہو اور دوسری ضعیف ، تو محدثین کے اصول کے مطابق عمل صحیح السند روایت پر ہوگا۔ ضعیف روایت کو صحیح روایت کے مقابلے میں ترک کر دیا جائے گا۔ اس لیے مفتی صاحب کا پہلا فرض یہ تھا کہ ہاتھ باندھنے والی دونوں قسم کی روایتوں کے متعلق یہ ثابت کرتے کہ سنداً دونوں صحیح اور یکساں حیثیت کی حامل ہیں ۔ لہٰذا تطبیق کے بغیر چارہ نہیں ۔ اس کے بعد موصوف کی مذکورہ تطبیق قابل تسلیم ہو سکتی ہے۔ بنا بریں تطبیق سے پہلے دونوں روایتوں کی سندی حیثیت دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سنن ابو داؤد کے اس نسخے میں نہیں ہے جو پاک و ہند میں متداول ہے۔ تاہم ابو داؤد کے ایک نسخے (ابن الاعرابی) میں یہ روایت موجود ہے لیکن وہاں امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اس کے ضعف کی بھی صراحت کر دی ہے (ملاحظہ ہوعون المعبود ، ج ۱ ص ۲۷۵) یہ بھی مفتی صاحب کی علمی دیانت کا ایک شاہکار ہے کہ روایت کے لیے تو سنن ابوداؤد کا حوالہ دیا ہے لیکن روایت کے ساتھ ہی اس کے ضعف کی جو صراحت اس میں ہے‘ اسے گول کر گئے۔ اس کے برعکس حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے اور بلوغ المرام میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے نقل کیا اور اُسے صحیح قرار دیا ہے، فتح الباری میں بھی انہوں نے اسے صحیح بتلایا ہے۔ نیز دیگر محدثین نے بھی اس کی تصحیح و توثیق کی ہے۔ حتی کہ کئی حنفی علماء نے بھی حدیث علی رضی اللہ عنہ کی تضعیف اور حدیث وائل کی تصحیح و توثیق کی ہے۔ چنانچہ چند حوالے ملاحظہ ہوں : ۱۔ علامہ عینی حنفی عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں لکھتے ہیں : [واحتج صاحب الھدایۃ لا صحابنا فی ذلک بقولہ صلی اللَّہ علیہ وسلم ان من السنۃ وضع الیمنی علی الشمال تحت السرۃ قلت ھذا