کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 11
ہے کہ مرد اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھائیں اور عورت سینے تک۔ لیکن حضرت! واضح رہے کہ حضرت وائل رضی اللہ عنہ کی یہ روایت حسب تصریحات محدثین ضعیف ہے جیسا کہ مجمع الزوائد میں بحوالہ طبرانی یہ روایت مع سند موجود ہے اور وہاں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ اس میں ام یحییٰ بنت عبدالجبار ایک راویہ ہے جو مجہول ہے (لم اعرفھا) ’’میں اسے نہیں جانتا۔‘‘ (مجمع الزوائد ، ج ۲ ۔ ص ۱۰۳) مفتی صاحب کا اصل مدارِ استدلال اسی روایت پر ہے جو استدلال و حجت کے قابل ہی نہیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے رسالہ ’’جزء رفع الیدین ‘‘ سے عبدربہ کی جو روایت نقل کی ہے۔ اس سے مرد و عورت کے درمیان فرق کا وہ پہلو نکلتا ہی نہیں جو مفتی صاحب اس سے کشید فرما رہے ہیں ۔ اس لیے اس پر استدلال کی جو عمارت کھڑی کی گئی ہے وہ بے بنیاد ہے۔ بہرحال مرد و عورت کے درمیان ، رفع الیدین میں فرق کی بابت احناف کے پاس کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔ جیسا کہ ابن حجر اور قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہما نے بھی لکھا ہے۔ جن کی نظر احادیث پر بڑی گہری اور وسیع ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔ [لم یرد ما یدل علی التفرقۃ فی الرفع بین الرجل والمرأۃ وعن الحنفیۃ یرفع الرجل الی الاذنین والمرأۃ الی المنکبین لانہ استرلھا۔] (فتح الباری، کتاب الاذان ، باب ۸۵ ص ۲۸۷‘ حدیث : ۷۳۸‘ ج ۲ طبع دارالسلام‘ الریاض) یعنی ’’حنفیہ جو یہ کہتے ہیں کہ مرد ہاتھ کانوں تک اُٹھائے اور عورت کندھوں تک ، مرد و عورت کے درمیان فرق کرنے کا یہ حکم کسی حدیث میں وارد نہیں ۔‘‘ اور امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : [واعلم ان ھذہ السنۃ تشترک فیھا الرجال والنساء ولم یرد ما یدل علی الفرق بین الرجل والمرأۃ فی مقدا رالرفع و روی عن الحنفیۃ ان