کتاب: کیا عورتوں کا طریقہ نماز مردوں سے مختلف ہے؟ - صفحہ 10
ہے تو یہ بہت بڑی جسارت ہے اور ﴿لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ َیدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ﴾ (الحجرات : ۱) کے صریحاً خلاف ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تو یہ معلوم نہ ہوا کہ عورتوں کے لیے فلاں طریقۂ سجدہ یا طریقۂ رکوع استر (زیادہ با پردہ) ہے اور اس سے شریعتِ اسلامیہ کا منشا زیادہ صحیح طریقے سے پورا ہوتا ہے۔ تاہم بعد کے فقہاء کو یہ نکتہ سوجھ گیا اور انہوں نے اس ’’خلاء‘‘ کو پر کرکے شریعت کے منشاء کی تکمیل کر دی ہے۔ نعوذ باللّٰہ ثم نعوذ باللّٰہ کیا مفتی صاحب کی بیان کردہ علت سے یہی کچھ واضح نہیں ہوتا؟ مفتی صاحب کی بیان کردہ احادیث کا جائزہ: اب مفتی صاحب کی نقل کردہ احادیث کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ وباللّٰہ التوفیق۔ نیت باندھتے وقت ہاتھ اُٹھانے میں فرق؟: مفتی صاحب لکھتے ہیں : ’’اب اس سلسلے میں احادیث ذکر کی جاتی ہیں کہ عورتیں ہاتھ کہاں تک اُٹھائیں معجم طبرانی میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن حجر جب تو نماز پڑھے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کے برابر کر لے اور عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے سینے کے برابر کر لے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک مستقل رسالے میں جو رفع الیدین کے متعلق ہے، نقل کیا ہے کہ عبدربہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ام الدرداء رضی اللہ عنہ (جو مشہور صحابیہ ہیں ) کو نماز میں کندھوں کے برابر ہاتھ اُٹھاتے دیکھا ہے۔ دونوں حدیثوں پر عمل اس طرح ہوگا کہ کندھوں تک ہاتھ اُٹھانے میں ہاتھ کا کچھ حصہ سینے کے برابر بھی ہو جاتا ہے۔‘‘ جواب یہ ہیں مفتی صاحب کے دلائل اس بارے میں کہ نیت باندھتے وقت عورتیں ہاتھ کہاں تک اُٹھائیں ۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت سے موصوف نے ثابت کیا