کتاب: کیا ووٹ مقدس امانت ہے - صفحہ 6
کبریائی کے خلاف اعلان جنگ بن جائیں۔وہ دعوت دے تو دنیا سے یہ تسلیم کرانے کیلئے کہ رب العالمین کے قانون کے سوا ہر نظام اور ہر قانو پاؤں تلے روند دیئے جانے کے قابل ہے اور انسان کی جبیں نیاز کا ہر سجدہ خالق کائنات کا حق ہے۔وہ جہاد کرے تو جابروں کو سدھانے او ر دھرتی کو طاغوت سے پاک کرنے کیلئے۔اس کا جینا بھی بت گرانے اور شرک مٹانے کی کوشش میں ہو اور ا سکا مرنا بھی اللہ کا نام بلند کرنے کی خاطر۔غرض اس کی ساری زندگی لا الہ الا اللہ کے اس مفہوم کی شہادت ہوتو عبادت کہلاتی ہے۔ اللہ کی بڑائی کا یہ اقرار تب تک کارآمد نہیں جب تک اس کے شریکوں اور دنیا کے باطل خداؤں کو عداوت اور براء ت کے پیغام نہ پہنچا دیئے جائیں۔اللہ پر ایمان بھی تب ہی معتبر ہوگا۔جب طاغوت سے کفر کرکے ساری زندگی اس سے دشمنی اور بیر رکھنے کا عہد کیا جائے۔تب ہی اللہ سے دوستی ہوگی اور تب ہی وہ مضبوط آسمانی سہارا ہاتھ آئے گا جو نہ دنیا میں مرتے دم تک ساتھ چھوڑنے والا ہے اور نہ آخرت کی مشکل گھڑی میں۔ ﴿فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا﴾(البقرۃ:256) ’’اب جو طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا،اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔‘‘ مالک الملک کی کبریائی کی یہ شہادت خالی نفلی عبادت یا صرف بلندی درجات کا سبب نہیں جس کا کرنا یا نہ کرنا آپ کی مرضی اور مزاج پر موقوف ہو!یہ کوئی سیاسی موقف بھی نہیں جو آپ کی تنظیمی پالیسی کا محتاج نظر ہو!یہ ایمان کا بنیادی مسئلہ ہے اور ہر انسان کا فرض اولین۔یہ امیر پر بھی فرض ہے اور غریب پر بھی۔ایک مزدور اور کسان سے بھی اس کا وہی تقاضا ہے جو ایک سرمایہ دار اور زمیندار سے۔ایک عالم اور دانشور بھی دنیا میں یہی شہادت دینے کے لئے پیدا ہوا ہے اور ایک عامی اور معمولی حیثیت کا آدمی بھی۔