کتاب: کیا ووٹ مقدس امانت ہے - صفحہ 4
اور آفاقی حیثیت کم نہیں ہوجاتی۔ اس کے علاوہ ووٹ کے عنوان سے بھی کوئی ہرگز یہ نہ سمجھ لے کہ ہم خاص اس فعل کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑنا چاہتے ہیں اور اگر کوئی سیاست سے ویسے ہی لاتعلق ہے(ووٹروں کی اکثریت حق رائے دی استعمال نہیں کرتی) تو یہ رسالہ اس سے متعلق نہیں!الیکشن سے عدم دلچسپی کاسبب اگر بصیرت ایمانی نہ ہوتو ایسے دنیا بیزاروں سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ چونکہ یہ رسالہ الیکشن کے ساتھ خاص نہیں اس لئے کوئی صاحب اسے اخباری روزنامچہ نہ سمجھ لے جو تاریخ اشاعت سے اگلے ہی روز اپنی افادیت کھودیتا ہے او ریوں بڑے آرام سے ردی کی نذر ہوجاتا ہے۔یہ رسالہ عقیدہ کی دعوت ہے اور اس دعوت کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے الیکشن سے بعد کا وقت بھی اتنا ہی مناسب ہے جتنا اس سے پہلے۔ ہماری درخواست ہے کہ اس موضوع پر کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے یہ رسالہ پڑھ لیا جائے۔اس کے بعد جو رائے قائم کرنا چاہیں آپ آزاد ہوں گے۔اس رسالے میں بعض شبہات کابھی مختصر طور پر ازالہ کیاگیا ہے۔شبہات اور اعتراضات اور بھی ہوسکتے ہیں جو اگر ہم تک پہنچائے جائیں تو رسالہ کی آئندہ اشاعت میں مفید و ممد ہوں گے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ جمہوریت ایسے طویل موضوع کا ایک مختصر رسالہ میں سما جانا ممکن ہی نہیں۔اسے پوری تفصیل کے ساتھ زیر بحث لانے کے لئے دراصل کئی ایک تصنیفات کی ضرورت ہے مگر انسانی ہمت بہرحال محدود ہے۔اس سلسلہ کی پہلی کتاب ’’جمہوریت وقت کا طاغوت‘‘تیاری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ہماری درخواست ہے کہ ہمارے موقف کی پوری وضاحت اور اس پر وارد شبہات کے مفصل جواب کے حصول کے لئے اس کتاب کا انتظار کر لیاجائے۔ حاملین دین کو عقیدہ و تحریک کے منہج سلف سے روشناس کرانے کے لئے اور اپنے گرد و پیش کے بارے میں بصیرت پیدا کرنے کے لئے بہت کچھ لکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں معاشرے کے