کتاب: کیا ووٹ مقدس امانت ہے - صفحہ 3
بنادے۔
اس سلسلے میں ہم کچھ وضاحتیں کر دینا چاہتے ہیں۔
وہ لوگ تو اس رسالے کے مخاطب ہی نہیں جو اس نظام طاغوت کو بلاچوں و چرا تسلیم کرکے طاغوت کی بندگی کر رہے ہیں اور شاید انہیں اس پر فخر بھی ہو۔ہمارے مخاطب صرف وہ لوگ ہیں جو بہرحال اپنے آپ کو مسلمان رکھنا چاہتے ہیں اور اسلام ہی پر مرنے کی آرزو دل میں رکھتے ہیں۔ہماری بات صرف اس طبقہ سے ہوگی جس کی محفلوں میں بہرحال اللہ اور یوم آخرت کا ذکر ہوتا ہے اور جس میں دین کی اتنی رمق باقی ہے کہ اس جاہلی نظام کے ’’ناقدین‘‘ میں بہرکیف شامل ہوتا ہے۔
باقی وہ لوگ جن کے لئے عورت کی حکمرانی کفر کی حکمرانی سے زیادہ تکلیف دہ ہے،ملک کا غم جنہیں دین سے زیادہ رہتا ہے اور قومی ترقی کی فکر جہنم کے عذاب سے زیادہ پریشان کرتی ہے یا جو محلے کے کونسلر سے خرابی تعلقات کے متحمل نہیں،وہ اسلام پسند جو ’’چھوٹا کفر‘‘ اور ’’کمتر برائی‘‘ قبول کرنا ہی ہر مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں اور وہ تھکے ہارے مسلمان جن کا وزن اس معاشرے میں صرف ووٹ کی حد تک ہی ہے اور وہ اسی کے ذریعے کمال کر دکھانا چاہتے ہیں …ان سب لوگوں کے لئے ہماری باتیں دل کو لگنے میں ناکام ہوجائیں تو یہ ہماری توقع کے عین مطابق ہوگا۔شکست خوردہ انسانوں کی بھیڑ کو ایمانی عزت کا مفہوم سمجھانا اور عزیمت کی راہ پر گامزن کرنا کبھی آسان نہیں رہا۔پستیوں میں بسنے والے بلندیوں کو سر کرنے کی بات کو ہلاکت اور تباہی کی دعوت قرار دیں تو یہ کبھی پہلے تعجب کی بات رہی ہے نہ اب۔
تصحیح معلومات کی خاطر ہم یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ انتخابات کی اس بھیڑ کے موقع پر ہم نے فرزندان توحید تک ان کے عقیدے کی یہ آواز پہنچانے کی کوشش ضرور کی ہے مگر ہمارے رسالے کے اس موضوع کو وقتی اور مقامی نہ سمجھ لیا جائے۔ایسے موقع پر حق بیان کرنا ناگریز تر ضرور ہوجایا کرتا ہے مگر اس وجہ سے حق کو بھی ہنگامی سمجھ لینا بہت بڑی زیادتی ہوی۔حق پر ایمان اور باطل کا انکار الیکشن سے پہلے اور بعد یکساں فرض ہے اور اس کا ابلاغ کسی وقت ضروری تر ہوجائے تو اس سے اس فرض کی عالمگیر