کتاب: کیا ووٹ مقدس امانت ہے - صفحہ 20
اللہ تعالی اس آئین کی رو سے ’’حاکم اعلی‘‘ ہے! اللہ کی حاکمیت کا یہ نسخہ بھی کیا خوب ہے جو سیاست کے ایوانوں کو شریعت محمدی ی غیر مشڑوط اطاعت اختیار کئے بغیر ہی اسلام کی سند دے دیتا ہے شیطان نے سمجھا دیاہوگا کہ اگر برطانیہ کابادشاہ امر ونہی کے ہر قانونی اختیار سے تہی دست ہونے کے باوجود تاج پہننے کا مجاز اور قانوناً واجب اطاعت نہ ہونے کے باوجود تخت شاہی پر متمکن ہے تو پاکستان میں حاکم اعلی کی آسامی پر لفظوں کا کھیل کیوں ممکن نہیں!یہ بات آپ کو ناگوار گزرے تو ذرا دستور میں پاکستان کی قانون ساز مخلوقات کے آئینی اختیارات کا ایک نظر جائزہ لیجئے اور پھر فرمائیے برطانیہ میں بادشاہ اور پاکستان میں حاکم اعلی کے اعزازی عہدے میں کیا فرق ہے؟سبحانہ و تعالی عما یشرکون۔ بنابریں یہ بات کسی خوش فہمی سے زیادہ نہیں کہ ملکی آئین نے اللہ کو ’’حاکم اعلی‘‘ کہہ کر ایک بار زبان سے کلمہ ادا کر دیا ہے اور اب معاملہ صرف عملی کوتاہی تک محدود ہے کلمہ کے مطلب سے تو ادنی ترین واقفیت رکھنے والے بھی بتاسکتے ہیں کہ حکم و آئین کے باب میں اللہ کو حاکم اعلی کہہ دینے سے کام نہیں چلتا اس سے پہلے غیر اللہ کی حاکمیت اور قانون سازی ایسے اختیار کی دو ٹوک اور صاف صاف نفی ضروری ہے۔اس کے بعد ہی اللہ تعالی کو حاکم ماننے کی بات معتبر ہوسکتی ہے۔آج تاریخ کا چہرہ مسخ نہ کر دیاگیا ہوتا تو یہ بات محتاج وضاحت نہ تھی کہ پرانی قومیں بھی اللہ کو معبود اعلی کہنے سے انکاری نہ تھیں مسئلہ تو ہمیشہ چھوٹے چھوٹے خداؤں کارہا جن کا دعویٰ تھا کہ خداوند اعلی نے انہیں خدائی کے کچھ اختیارات سونپ رکھے ہیں۔خود انبیاء کا جھگڑا ان بیچ کے خداؤں سے تھا سو غیر اللہ کی بندگی اور اطاعت کی نفی پہلے ہو تو تب کلمہ ادا ہوتا ہے ورنہ حاکم اعلی کاتصور ت کبھی باعث نزاع نہیں رہا۔ ﴿أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ(39) مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلّٰهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾(یوسف:39-40)