کتاب: کیا ووٹ مقدس امانت ہے - صفحہ 19
دلالت چاہے جتنی بھی قطعی اور واضہ ہو اور حدیث کیسی بھی متواتر ہو آپ گھر بیٹھ کر اس کی تلاوت کریں یا مسجد میں جاکر لوگوں کو سنائیں مگر عدالت میں لا کر نہ اس کا تقدس پامال کریں اور نہ ججوں اور وکیلوں کاوقت برباد کریں کیونکہ آئینی لحاظ سے اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
کون نہیں جانتا کہ ملک میں رائج قانون قرآن کی محکم آیات سے نہیں بلکہ انگریزی قانون کی کالی کتابوں سے لیاجات ہے؟ایسا بھی نہیں کہ یہ بات آئین پاکستان سے متصادم ہو اور اسسب کی سب عدالتیں اس حاکم اعلی والی آئینی شق کے خلاف چل رہی ہوں جیسا کہ فریب دیاجاتا ہے کہ دستور تو اسلامی ہے گڑبڑ صرف اسکے نافذ کرنے والے کرتے ہیں۔اس کے برعکس دستور کی دفعہ(1)268کی عین یہی منشا ہے کہ قانون کتاب اللہ کی بجائے انگریزی دور کے صحیفوں سے لیا جائیگا۔جتانا بھی فریب دیاجاتا رہے مگر اس بات سے کون لاعلم ہے کہ عدلیہ،مقنّنہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور افراد اسی قانون پر عمل درآمد کاحلف اٹھاتے اور اسی سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔قانون دان آپ کو یہی بتائیں گے کہ دستور پاکستان،اللہ کے حاکم اعلی ہونے کا یہ مطلب کہیں نہیں لیتا کہ اس کی اتاری ہوئی آیات کو قانون کا درجہ حاصل ہے۔یہ ویسا ہی ہے کہ اللہ الہ تو ہے مگر اس کو بندگی کرانے کا حق نہیں!چنانچہ دستور میں مذکور یہ حاکمیت اعلی کسی قانونی اطاعت اور آئینی فرمانبرداری کو مستلزم نہیں۔نہ یہ حاکم اعلی والی شق غیر اللہ کے قانون کو باطل اور غیر اللہ کی اطاعت کو حرام قرار دیتی ہے یہ تو ایسا ہی ہے کہ لا الہ الا اللہ کہہ کر بھی غیر اللہ کی بندگی کو حرام نہ سمجھا جائے۔سو ملکی آئین میں اللہ حاکم اعلی ضرور ہے مگر سیاست اور قانون کے ایوانوں میں امر و نہی اور تحلیل کااختیار اسے نہیں بلکہ اس ملک کے قانون ساز خداؤں کو ہے۔رہا حاکم اعلی تو اس کا حکم نہ تو پولیس کے لئے ہے نہ فوج کے لئے،نہ عدالتیں اس کے قانون اور اس کے نازل کردہ حلال وحرام پر فیصلے دینے کی دستوراً پابند ہیں نہ شعبہ ہائے زندگی کو چلانے والے سرکاری اداروں پر اس کی آیات اور اس کے رسول کے فرمان کے سامنے سمعنا و اطعنا کہنے کی کوئی آئینی پابندی ہے اور نہ تعلیمی اور نشریاتی شعبوں میں شرک و الحاد کے سبق دینے پر کوئی قدغن۔اس تمام تر شرک اور بغاوت کی کھلی آئینی چھٹی کے باوجود