کتاب: کیا ووٹ مقدس امانت ہے - صفحہ 18
یہ شرک ضرور ہے مگر چونکہ کلمہ پڑھ کر کیاگیا ہے اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں!یہ بھی دیکھتے چلیں کہ حاکم اعلی کے اس لفظ کی دستوری تفسیر کیا ہے؟دستور اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ حاکم اعلی ایک بے ضرر سا ’’اعزازی عہدہ‘‘ہے جو نہ تو کسی کو جیل بھجوا سکتا ہے اور نہ ہی جیل سے چھڑا سکتا ہے۔اس کی اتاری ہوئی آیت نہ تو کسی چور کا ہاتھ کٹوا سکتی ہے۔اور نہ سود کو ناجائز اور قابل مواخذہ قرار دے سکتی ہے اس کا فرمان بہترین اخلاقی اپیل تو ہے مگر قانوناً نہ جوئے کو روک سکتی ہے اور نہ فحش فلموں کو۔انسانی زندگی میں جائز و ناجائز اور قانونی و غیر قانوی قرار دینا یہ ایک باقاعدہ اختیار ہے جو اس آئین میں ’’حاکم اعلی‘‘ کو بہرحال حاصل نہیں اور نہ ہی یہ بات طے کرنا اس کے رسول کاکام ہے!اللہ اور اس کے رسول کو مذہب کے شعبے میں تو جائز و ناجائز کے تعین کا پورا حق حاصل ہے مگر قانون کے شعبے میں نہیں(کیونکہ مذہب اور قانون اس شرکیہ نظام میں دو الگ الگ چیزیں ہیں!)قانون کے شعبے میں حلال و حرام کا تعین ’’حاکم اعلی‘‘ کے رسول کاکام نہیں بلکہ دیباچہ دستور کی روسے یہ حق اس کی مخلوق کے نمائندوں کو سزاوار ہے۔شق کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔
Wherein the state shall excercise its powers and authority through the chosen representatives of the people.
بلکہ آئین کاآرٹیکل 4یہ کہتا ہے کہ جرم اور سزا کا تعین صرف اور صرف ملک میں رائج قانون کرے گا یعنی یہ حق اللہ اور اس کے رسول کو نہیں کہ جرم و سزا کا تعین وہ کریں۔اللہ اور اسکے رسول نے اگر کچھ کہنا ہی ہے تو وہ عوامی نمائندوں سے کہیں۔صرف وہی اس بات کے مجاز ہیں کہ ’’اگر وہ چاہیں تو‘‘ اللہ اور اس کے رسول کی بات کو قانون کا درجہ دے دیں،نہ مانیں تو اللہ اور رسول کی بات کی وہی حیثیت ہوگی جو کسی بھی اسنان کی کسی بھی قانونی تجویز یا مطالبہ کی ہوسکتی ہے۔چنانچہ یہ حاکم اعلی والی شق دستور کے دیباچہ میں ہے ضرور مگر اسے لے کر ایوان ہائے عدل میں چلے جانے کی کہیں گنجائش نہیں۔سب سے پہلے یہ آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔اگر آپ تجربہ کرنے پر مصر ہوں تو بڑے شوق سے ایسا کر دیکھئے آپکو یہی جواب ملے گاکہ عدالتوں کو اس سے غرض نہیں کہ قرآن میں کیا آیا ہے یا حدیث میں کیا لکھا ہے قرآن کی