کتاب: کیا ووٹ مقدس امانت ہے - صفحہ 15
غرق کرے گا اور ان میں سے بندر اور سور بنائے گا۔‘‘
دوہرے پیمانے
اہل خرد کے سامنے ہم یہ سوال رکھنا چاہتے ہیں کہ کیا کفر وہی ہوتا ہے جو کسی ہندو عیسائی یا یہودی کے ہاتھوں سرزد ہو؟اور اگر اللہ کی وہی بغاوت،وہی کفر اور وہی شرک ’’کلمہ‘‘ کی رسم ادا کرلینے کے بعد ہوتا رہے تو الہی اصولوں کو تبدیل ہوجانا پڑتا ہے؟کیا کفر کی گالی کھانے کے لئے استعمار کابنفس نفیس یہاں موجود ہونا ضروری ہے؟یہ کاسفر استعمار خود موجود نہ ہوتو پھر اس کے جانشین خواہ اسی کے دین اور اسی کے قانون کے رکھوالے ہوں،بس مقامی نسل ہونے کے ناطے ان کا یہ حق ہوجاتا ہے کہ استعمار کے خلاف اٹھے ہوئے ہاتھ جہاں تھے وہیں رکے کے رکے رہ جائیں!طاغوت کے منصب پر کوئی اپنا بیٹھ جائے تو کیا شرعاً خیر سگالی فرض ہوجاتی ہے؟تب تبدیلی لانے کی ہر اسکیم پر سرکاری منظوری کی شرط بھی عائد ہوجاتی ہے؟اگر ایسا ہے تو ماننا پڑے گا کہ ہمارے دین میں واقعی کوئی ایسا رخننہ موجود ہے اور اس میں نقب لگانے کی واقعی اتنی گنجائش ہے کہ وہ کام جو کفار مغرب کے ٹینک اور توپیں نہ کر سکیں وہ یہاں کے ’’ظل اللہ ‘‘ بیٹھے بٹھائے ازروئے شڑیعت کر لیا کریں!سو کیا فرزندگان اسلام کو اپنی شرعی رعایا بنا رکھنے کے لئے شیاطین مغرب کو صرف اتنی تکلیف کرنی پڑے گی کہ ان ملکوں کی حکمران آسامیوں پر مقامی بھرتی کر لی جائے؟تب ہمارے دین میں اس کفر سے برسر پیکار ہونے کے لئے کوئی دلیل باقی نہ رہے اور علماء یہ فتویٰ دینے لگیں کہ اب کلمہ خیر او ردعا کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اس باطل نظام کو عداوت کے پیغام دینا شریعت کے خلاف ورزی اور پیغمبر کی حکم عدولی ہے؟
یہ دوہرے پیمانے رکھنے کاسبب کی ایہ تو نہیں کہ آج حق اور باطل کے اصل پیمانے چھپ گئے ہوں ؟حق وہ ہو جو اخباروں میں چھپے اور باطل وہ جو ہمارے دانشوروں کو برا لگے!شڑک و توحید کا فرق