کتاب: کیا ووٹ مقدس امانت ہے - صفحہ 13
’’کہو وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کردے،یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کردے،یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔دیکھو،ہم کس طرح بار بار مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں ان کے سامنے پیش کررہے ہیں شاید کہ یہ حقیقت کو سمجھ لیں۔‘‘
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى﴾(طہ:124)
’’اورجو میرے ذکر(درس نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔‘‘
ان تمام مخلصین سے ہمیں دریات کرنا ہے کہ آج کفر کی نیست و نابود کر دینے میں اصل رکاوٹ اس کے سوا کیا ہے کہ باطل کا قبیح چہرہ اسلام کے پردے سے ڈھانپ دیا گیاہے؟آج فرزندان توحید کے ہاتھوں میں تیشے اس لئے دکھائی نہیں دیتے کہ معبودان باطل کو اسلام کی قبائیں زیب تن کرادی گئی ہیں۔آج اللہ کے شڑیکوں تک نے کلمہ گوئی کی سند حاصل کر لی ہے اور باطل کا سرکاری نام حق رکھ دیاگیا ہے۔چاہیئے تو نہ تھا کہ آج باطل تہ تیغ ہونے سے اس لئے بچا رہتا کہ کفر نے اسلام کا روپ دھار لیا ہے اور استعمار نے اپنی شکل تبدیل کر رکھی ہے۔مگر کیا وجہ ہے کہ نصف صدی سے انہی ایوان ہائے شرک کا طواہ ہوتا ہے اور کسی کو یہ احساس نہیں کہ اللہ کے عذاب کو برسر عام دعوت دی جارہی ہے؟
کیا ہمارے دین میں واقعتا کوئی ایسا رخنہ ہے کہ کلمہ گوئی کے بعد ہر قسم کے شرک اور کفر کا کھلا پروانہ مل جاتا ہے؟کیا واقعی کفر کو اسلام بن جانے کے لئے صرف تبدیلی نام کی ضرورت ہوا کرتی ہے؟اور یوں نام اور شکلیں تبدیل ہوجائیں تو کفر اسلام بن جایاکرتا ہے،حرام حلال ہوجاتا ہے اور طاغوت ’’اولی الامر‘‘کہلانے لگتے ہیں ؟اگر سود کو انسوٹمنٹ کانام دے دیا جائے،جوے کو انشورنس اور پرائز بانڈ کہہ لیاجائے،شراب کو جامِ حیات فاحشاؤں کو فنکار و آرٹسٹ اور غیر اللہ کی حاکمیت ایسے کھلے شرک کر اسلامی جمہوریت کالقب دے دیاجائے تو کیا واقعی شریعت کے تقاضے بدل جاتے ہیں ؟