کتاب: کیا ووٹ مقدس امانت ہے - صفحہ 10
چلنا غیر اللہ کی بندگی۔مسند احمد اور ترمذی میں روایت ہے کہ حضرت عدی بن حاتم نے،جو پہلے عیسائی تھے،بوقت قبول اسلام اس امر کا انکار کیا ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللّٰهِ﴾ کہ ’’انہوں نے اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا تھا۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ جواب دیا تھا۔
بلی إنہم حروموا علیہم الحلال و أحلوا لہم الحرام فاتبعوہم فذلک عبادتہم إیاہم۔
’’کیوں نہیں!وہ ان پر حلال کو حرام کرتے اور حرام کو حلال کرتے تو وہ تسلیم کرلیتے تھے۔یہ ان کی عبادت ہی تو ہے‘‘(تفسیر ابن کثیر)
سو قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہی ہے کہ کسی کا قانون تسلیم کرنا دراصل اس کی عبادت ہے اگرچہ اس کام کو عبادت اور بندگی کانام نہ بھی دیاجائے،چاہے یہ کام کرنے والوں کو معلوم تک نہ ہو کہ بندگی اور عبادت یہی ہے،جیسا کہ عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم کو معلوم نہ تھا۔قرآن کی رو سے یہ بھی ضروری نہیں کہ کوئی انسان خدا کہلا کر ہی خدائی کے مرتے پر فائز ہوتا ہو جیسا کہ احبار و رھبان خدانہ کہلاتے تھے مگر قرآن نے ان کو اربابا من دون اللہ کہا ہے۔چنانچہ ہر وہ انسان جو انسانوں کے لئے قانو صادر کرنے کا حق رکھتا ہو وہ اللہ کا شریک ہے۔زمین کے جھوٹے خداؤں میں اس کا باقاعدہ شمار ہوگا اگرچہ اس کا لقب فرعون نہ ہو اور اگرچہ وہ عوام کا نمائندہ یا عوام کا خدمت گار کہلاتا ہو۔
یہ عبادت اور الوہیت کے مفہوم درست نہ ہوئے تو بتوں کو پوجے جانے کے لئے شکلیں بدلنی