کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 94
احادیث کا ایک اشاریہ دیا جاتا ہے۔ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آغاز کی حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بخاری کی کتاب بدء الوحی میں اس کی متعدد جہات کو محیت ہے اور ان میں شامل ہیں :رویاء صادقہ کی نوعیت، رویاء صادقہ سے وحی الٰہی کا آغاز یعنی مکی حدیث سے نبوت محمدی کا اثبات، عزلت گزینی اور جوار غار حراء کا تاریخی سیرتی واقعہ اور غارحراء میں تنزیل قرآنی کا اولین واقعہ۔ یعنی سورہ اقراء کی پہلی پانچ آیات کریمہ کی تنزیل و تعلیم جبریلی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت قرآنی کی سعی مشکور، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی تصدیق و توثیق اور حضرت ورقہ رضی اللہ عنہ بن نوفل اسدی عالم انجیل و تورات و حنیف سابق کے پاس لے جانے کی واقعیت اور حضرت ورقہ رضی اللہ عنہ کی تصدیق رسالت محمدی اور ناموس اکبر کی شناخت کہ وہی ناموس آیا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی لاتا تھا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت و مدد کے ساتھ آپ کی قوم کی مخالفت اور ترک وطن، ہجرت کی پیشگوئی اور آپ کے ان کے خلاف قتال و جہاد کی پیش گوئی اور وفات ورقہ رضی اللہ عنہ کی خبر وغیرہ۔ اس جامع روایت بخاری اور حدیث امام میں مختلف اوقات کے واقعات و معاملات کو سمودیا گیا، اور امام ابن اسحاق نے یہی جامع روایت دی ہے اور کئی منفرد احادیث بھی۔ فترہ وحی کے ناقص عنوان واصطلاح سے متعلق حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ، اصلاً وہی وحی قرآنی کا اولین جاں سوز فترہ تھا جس نے قلب نبوی اور روح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کلام و کتاب الٰہی سے اور اس کی حکمت و علم و معرفت سے محرومیت کا ایک شدید احساس و اضطراب دیا تھا۔ اس دور فترہ قرآنی میں وحی حدیث جاری رہی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ جاری و ساری رہی تاکہ آپ کے اضطراب قلب کی تسکین اور منکرین و ناقدین کے طنزو تعریض کی کاٹ کر سکے۔ فترہ وحی حدیث تو اس سے قبل ہوتا رہا تھا اور فترہ قرآنی اسی پیشتر وسنت و حکمت الٰہی کا ایک حصہ تھا۔ وہ در اصل اس حقیقت کا پیش خیمہ بھی تھا کہ وحی حدیث کی مانند وحی قرآنی بھی مسلسل و متواتر نازل نہ ہوگی بلکہ مختلف فرات ووقفوں سے آئے گی