کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 91
سابھی شائبہ نہ رہ جائے(61)۔ خالص انسانی تدبیریں دو قسم کی تھیں: (1)نازل شدہ قرآن مجید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے سامنے تلاوت فرماتے اور ان میں کافر و مومن دونوں شامل ہوتے۔ مومنین و صحابہ و صحابیت کو لازمی طور سے آپ یاد کرادیتے۔ متعدد ہی نہیں بہت سے صحابہ و صحابیات تمام مکی قرآن کے حافظ بھی تھے اور جامع قاری بھی۔ (2)کا تب صحابہ کرام کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نازل شدہ آیات کریمہ یا سورتوں کی کتابت کراکے محفوظ فرماتے۔ مکی کا تبین نبوی کی خاصی تعداد اس دور اول میں تھی۔ ان میں سے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے اپنے صحیفے بھی تیار کر لیے تھے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے ضمن میں دو صحیفوں کا ذکر ملتا ہے یا صحیفہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے۔ ان صحائف مکیہ اسلامیہ کا کردار و کار فرما واقہ اپنی جگہ، قرآن مجید کی زبان و طرز ادا اور اسلوب و بیان نے اسےزبان کافراں پر جاری ساری کردیااور مختلف افراد اور ممکن ہے کہ طبقات نے بھی ان کو یادداشت میں محفوظ کرنے کے علاوہ ان کی کتابت بھی کی ہو، ترسیل وابلاغ تو متعدد نے کیا تھا(62)۔ جمع و تدوین قرآن کریم عہد نبوی میں جمع و تدوین قرآن کریم کے اہم ترین اور عظیم الشان کار نبوت کو روایات و اخبار کے گورکھ دھندے میں مبہم و متنازعہ بنا دیا گیا ہے۔ غلط العوام سے زیادہ وہ غلط الخصواص بلکہ خبط الحواس کا ایک روایتی شاہکار ہے۔ وہ قرآن مجید کی کتابت، حفظ وغیرہ کے منافی تو ہے ہی حفاظت قرآن کے الٰہی وعدہ کی نفی کرتا ہے۔ مکی دور میں مکی سورتوں اور ان کی آیات کریمہ کی باہمی ترتیب اور مکی سورتوں کی نزولی ترتیب پر اتنی شہادتیں ہیں کہ منکرین تک تسلیم کرتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآءت و تلاوت کی لفظی تدوین اور املاء و کتابت کی تحریری تدوین دونوں کے بعد کتاب نبوی؍ کاتبین مکی سےان کی سماعت فرما کر تصحیح و تصدیق فرماتے۔ مختلف اجزاء واشیاء پر لکھے جانے کے باوجود قرآن مجید کی مکی سورتوں کی اپنی اندرونی صحت اور ظاہری حد بندی