کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 90
صریح ذکر ہی مکی آیات اور ان کی سورتوں میں نہیں ہے بلکہ ان کے مضامین و معانی ان میں سمودینے کا واقعہ بھی ہے۔ صحف اولیٰ، صحف ابراہیم و موسیٰ، تورات و زبور اور انجیل کا ذکر مکی سلسلہ انبیاء کے تسلسل و تواتر کا جس طرح شاہد ہے اس طرح قرآن مجید سے ان کے ارتباط کا۔
٭ مکی قرآن عظیم کا ایک بے نظیر وغیر فانی امتیاز خاص یہ بھی ہے کہ وہ تمام سابقہ انبیاء کرام اور ان کی امتوں کے قصص عالیہ و عبرت آموز کو پوری تفصیل و صراحت اور بیان و تبیین کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ ان میں سے کسی نبی مرسل و پیغمبر مبعوث کا ذکر اولین مرتبہ کسی مدنی سورت میں نہیں آیا ہے۔ انبیاء سابقین کے متعلق بعض تفصیلات و جزئیات بھی مدنی سورتوں میں ضرورآئیں ہیں مگر وہ صرف تسلسلات و تکمیلات کا مقام و مرتبہ رکھتی ہیں۔
٭ ختم نبوت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم الانبیاء کی ناقابل تردیدی شہادت کے ساتھ مکی قرآن کریم نے اپنے آپ کو خاتم الکتب بھی قراردیا ہے۔ اس کے بعد اب اور کوئی کتاب الٰہی نہ آئے گی۔ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی و رسول نہ آئے گا۔ محفوظیت و خاتمیت دونوں کا التزام اس کی شہادت واقعی ہے۔ وہ کتاب محفوظ بھی ہے اور کتاب عالمگیر بھی، اپنے صاحب کتاب کی طرح تاقیامت باقی رہنے والی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی دستاویزی شہادت دینے والی (59)۔
حفاظت الٰہی کے ساتھ ساتھ رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وکامل و جامع ترین کتاب الٰہی کی جو انسانی حفاظت کی تدبیریں کیں وہ بھی مکی ہیں۔ تکوینی نظام کے تحت صاحب کتاب و حامل قرآن کو ملائک و خاص فرشتہ تنزیل کے ذریعہ آیات قرآنی ذہن و قلب میں اتاردی جاتیں اور یاد کرادی جاتیں(60)اپنی انسانی و بشری کاوش سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام فرماتے اور ہر رمضان مکی میں ایک اور تکوینی نظام حفاظت کے تحت جبرائیل علیہ السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام راتوں میں نازل شدہ قرآن مجید کا مذاکرہ و تکرار کیا کرتے تاکہ غفلت و نسیان اور الحاق واضافہ غیر کا ذرا