کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 89
وہ اوج کمال و مرتبت شہر حرام ہیں۔ مدنی دور حیات میں ان سب کو خود قرآن حکیم نے اور رسول صادق الکلام نے تکمیلات کا درجہ دیا۔ یعنی بنیادی عمارت کی تکمیل و تزئین کا۔ مکی قرآن عظیم اور اس کی مکی سورتوں کے امتیازی جہات اور نہادی خصوصیات ایک ضخیم و حجیم دفتر تحقیق انسانی میں نہیں سما سکتے(58)۔ صرف چند خصائص کبریٰ : ٭ مکی تنزیل قرآن کریم کا زمانی دورانیہ طول مدت اور عرصہ کار سازی کے لحاظ سے نسبتاً طویل تر ہےاوروہ بارہ برسوں سے زیادہ کو محیط ہے۔ رمضان 41عام الفیل یا ایک سنہ نبوی مکی 61012ربیع الاول 53سنہ مکی نبوی ستمبر622ء کے دوران۔ ٭ تعداد کے لحاظ سے مکی سورتوں کا برتر عدد 86مدنی سورتوں کی تعداد اقل 28 کو حادی ہے۔ محض طول کلام کا شرف اسے حاصل ہے۔ ٭ زبان و بیان اور اسلوب وادا کے اعتبار سے قرآن مجید قریش مکہ کی ٹکسالی اور فصیح و بلیغ ترین زبان پر اتارا گیا۔ اس کی خاص مصالح ہیں۔ ٭ تمام عرب قبائل خاص کر مدینہ کے اوس و خزرج اور عربی داں یہود و نصاریٰ بھی قریشی زبان و لسان کی برتری کے قابل تھے اور اپنی فروتری تسلیم کرتے تھے۔ زبان قریش تمام عرب کے علاقوں، لوگوں اور ادیبوں و شاعروں میں سمجھی جاتی تھی۔ دوسری اقوام و قبائل کی زبان عربی لحن و لفظیات میں کبھی کم فہم بن جاتی تھی۔ ٭ معنوی اعتبار سے قرآن مجید کی زبان واصطلاح میں ام الکتاب، سبع مثانی اور مختصر مختصر سورتیں علم و حکمت کے تابندہ تر جواہر آبدار ہیں۔ بلا شبہ مدنی سورتیں اور ان کی آیات کریمہ بھی کلام الٰہی کی معنوی خصوصیات و برکات کی اسی طرح حامل ہیں لیکن اختصار میں جامعیت اور دونوں میں فصاحت و بلاغت ظاہری و معنوی اور علوم اور حکمتوں کا ایسا فائق تر، وسیع تر اور عظیم و حسین تر خزینہ بلکہ خزینے صرف مکی سورتوں کے خالص و منفرد و امتیازات ہیں۔ ٭ ذکر و کتاب الٰہی کی محفوظیت کا اعلان بھی مکی سورت میں ہے اور سابقہ کتب سماویہ کی مصدق ہونے کی واقعیت کا بھی۔ تمام صحف سماویہ کا عمومی اور نام بنام اور