کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 87
تعلیم و تدریس کی۔ عالم رویاء سے عالم شہادت کا اتصال ہوا اور وحی خفی کا وحی جلی سے، حدیث کا قرآن سے، تکوین کے معاملہ کا عالم ظاہر کے واقعہ سے(54) وحی خفی اور وحی غیر متلواور وحی جلی اور وحی متلو کے اولین عرصہ افتراق و فصل کا دورانیہ چھ ماہ کا تھا اور اسی وجہ سے رویا صالحہ کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قراردیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی الٰہی اور کلام ربانی کی کل مدت تیئس برسوں کو محیط تھی اور ان کی اولین ششماہی صرف رویاء صالحہ کے لیے مخصوص رکھی گئی۔ مقصد و مراد الٰہی وہی تھی جو قرآنی تنزیل کے وقفوں سے آنے کی تھی کہ وحی خفی سے پہلے قلب رسول اور اندرون و بیرون جسم اطہر کو کلام الٰہی جیسی گرا انباری کے برداشت کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔ کلام الٰہی کی لفظی و معنوی تنزیل کے واقعہ سے رویاء صادقہ کی صداقت اور ان کی تعبیرات سے ارتباط پر شہادت بھی لائی جائے۔ عام سیرت نگاروں نے وحی الٰہی کی ان خفۃ و پوشیدہ اور ظاہر باہر صورتوں میں فرق وامتیاز نہیں کیا اور اسی وجہ سے وہ نبوت محمدی کا آغاز تنزیل قرآن سے کرتے ہیں(55)۔ رمضان المباک ایک سنہ نبوی مکی سے قرآن کریم کی آیات کریمہ اور کامل سورتوں کا نزول اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کا سفیرانہ کام بھی تکوینی امر ہے۔ مگر وہ عالم شہادت و احساس کا ٹھوس واقعہ بن جاتا تھا کہ قرآنی تنزیلات کا مشاہدہ، اس کی کلامی قرآءت وکتابت کا تجربہ سب لوگوں کے مشاہدہ میں بھی آتا۔ وحی حدیث ورویاء صادقہ کا مشاہدہ بھی بچشم سر حاضرین نے دیکھا تھا اور آپ کے ارشادات عالیہ سے ان کی تصدیق و اثبات کی دولت بے بہا پائی تھی(56)۔ تنزیل قرآنی کا متاخر واقعہ کتاب الٰہی لانے، مرتب و مکتوب کئے جانے، الفاظ و معانی کلام الٰہی کے آمیز و لازم و ملزوم بنانے کا ایک عظیم الشان واقعہ ہے۔ اسی کے ساتھ ارتباط وحی حدیث ووحی قرآن کا ایک عجیب اور عظیم الشان امر الٰہی بھی تھا کہ دونوں وحی کلام ہونے کےسبب یکساں مرتبت کے تھے۔ رویاء صادقہ کا خالص اور رتنہا امتیاز و مقام قرآنی تنزیل کے آغاز سے تمام ہوامگر اسی کے ساتھ اس کا تسلسل بھی قائم رہا۔ یہ تسلسل وحی اور کلام