کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 86
سلسلہ)تو نبوت کی تکوینی شہادت اور وحی الٰہی اور کلام ربانی کی ایک صورت خاصہ تھی جو کسی واقعہ کو خوب میں دکھائی اور بیداری میں وہی خواب ورویا ٹھوس واقعہ میں ظہور پذیر ہو جاتا۔ واقعات و حوادث کی بعینہ صورت پذیری سے رسول مبعوث کے ذہن و قلب میں رویاء کے صدق کا ایقان بھرنا مقصود ہوتا۔ سچے خوابوں، رؤیاء صادقہ کا سلسلہ وحی اولین تمام پیشر و انبیاء کرام کی نبوت ورسالت، ایقان وایمان اور ان پر کلام ووحی الٰہی کے نزول کا ہی جزواول رہا۔ حضرات ابراہیم واسمٰعیل علیہ السلام، یعقوب و یوسف علیہ السلام اور متعدد دوسرے رسولان پیشترکے خوابوں کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود و مصدق ومصدوق ہے۔ رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا آغاز نبوت اسی معروف و مستنداور غیر مبدل سنت الٰہی کے عین مطابق رویاء صلاحۃ سے ہوا جیسا کہ حدیث بخاری: 3میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ امامان سیرت میں ابن اسحاق نے اس کے آغاز و تسلسل اور مدت اول اور ان کی اہمیت کا ذکر کیا ہے کہ وہ اکتالیسویں برس کے روز اول 12 ربیع الاول 41 عام الفیل سے شروع ہوا اور اس وقت آپ نے چالیس سال کی عمر پوری کرکے اکتالیسویں سال میں قدم رکھا تھا۔ جمہوریت سیرت نگاروں کا اس پراجماع ہے۔ رویاء صادقہ کے خالص اور اولین عرصہ کے نزول کی مدت چھ ماہ تک رہی اور وہ اوائل رمضان میں پوری ہوئی۔ اس عرصے میں آپ نے بہت سے خوب دیکھے اور ان کی تعبیر دیکھی، امام ابن اسحاق نے رمضان 41عام الفیل میں آخری رویاء صادقہ میں آپ کے غار حراء میں تحنث و جوار کے دوران حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ اولین تنزیل قرآن دیکھنے کا ذکر کیا اور بیداری میں آتے ہی آپ کے ارشاد عالی کا اثبات واظہار کیا کہ آپ نے خواب میں سماعت و قرات کردہ اولین پانچ آیات اقراء کو اپنے سینہ مبارک میں لوح و سفینہ علم کی مانند لکھا ہوا پایا۔ خواب کی تعبیرعالم مثال سے عالم ظہور و شہادت میں بیداری و ہوش و خرد کی محکمی کے ساتھ معاً اسی طرح ہوئی جیسے خواب میں اسے دیکھا تھا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک ریشمی سبز جزدان میں قرآن مجید، مصحف لے کر بصورت ظہور پذیر ہوئے اور اسی طرح پانچ آیات کریمہ کی