کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 84
وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا))”سورہ احزاب، 40کو محض نزول کے سبب مدنی اظہار جانا گیا۔“ مذکورہ بالا احادیث و آیات کریمہ کے متنی تجزیے و تحلیل سے ہی واضح ہوتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول الٰہی نہ تھے بلکہ خاتم النبیین بھی ہیں۔ خاص طور پر ادارہ نبوت کی عمارت عالیشان کی تکمیل والی حدیث، احادیث کے مطابق کہ جو رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ذات والا صفات عمارت کی تکمیل کرتا ہے وہ خاتم بھی ہوتاہے۔ قیامت اور اپنی نبوت ورسالت کو اپنی دو مبارک انگلیوں کی مانند ایک دوسرے سے لازم وملزوم اور بلا انقطاع یا ایک تسلسل میں واقعات دوگانہ قرار دینے کی مثال دی۔ وہ خود بتاتی ہے کہ اب قیامت تک کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا اور اس کی تصریح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری حدیثوں اور بیانوں میں بھی فرمادی۔ قیامت کے وقوع سے متعلق آیات قرآنی اور احادیث صلی اللہ علیہ وسلم نبوی کا ارتباط و تعلق بھی رسالت محمدی سے دریافت کیا جائے تو ختم نبوت پر واقعاتی شہادت ملتی ہے۔ قیاس و منطق بھی اور عقلی استدلال بھی اس امر واقعہ اور حقیقت بد یہی کی شہادت دیتے ہیں کہ آپ مکی دور کے اول روز سے خاتم النبیین ہیں۔ یہ سوال بلکہ خیال خام بھی کسی سمجھدار اور عاقل شخص کے ذہن و دماغ اور فکر و تصور میں بھی آسکتا ہےکہ مکی دور میں آپ محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور مدنی دور میں خاتم النبیین بنائے گئے۔ مکی دور کے تیرہ سالہ عرصہ نبوت میں کسی بعد کے یا متاخر زمانے میں خاتم النبیین ہونے کا خیال آئے تو اسے ارتقا کا ایک مرحلہ سمجھا جائے گا اور وہ بھی محال ہے۔ اس سے یہ لازم آئے گا کہ کسی زمانے، دور یا ایام میں آپ صرف ایک رسول بنائے گئے اور بعد میں ترقی دے کر آپ کو خاتم النبیین کے منصب پر فائز کردیا گیا۔ یہ آپ کی عالمگیر، آفاقی، ازلی ابدی نبوت ورسالت پر ہی نہیں حرف گیری ہوگی بلکہ علم و فیصلہ الٰہی کی نکتہ چینی ہے کہ اس کے اعلان و فیصلہ میں اتنی تاخیر ہوئی۔ مدنی آیت کریمہ اور مذکورہ بالا احادیث نبویہ کی زمانی و مکان قطعیت کا