کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 82
واسماعیلی میں رسول اعظم معبوث ہو گا۔ تکوینی خفیہ و ماورائے عقل وفہم انسانی کی حقیقت، کار سازی اور کار کردگی کا اثبات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت سے سر فرازی کا ظاہری واقعہ ہے(50)۔ ملت ابراہیمی اور ملت بیضاء سمحہ کا احیاء و تجدیدو تکمیل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص وسیع ترین اور مجموعی فریضہ حیات و کار منصبی دونوں تھا۔ قرآن مجید کی مکی سورتوں کی آیات کریمہ میں مسلسل ومتواتر آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی متابعت، دین وملت ابراہیمی کی پیروی کا محکم حکم دیا گیا ہے۔ متعدد احادیث شریفہ میں اپنی زبان رسالت مآب ووحی آگیں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت و نبوت کا مقصد کامل و جامع ملت ابراہیمی کا احیاء و تکمیل قرار دیاہے۔ ایک حقیقت تکوینی اور واقعیت ظاہری مذکورہ بالا حکم الٰہی اور تعمیل وارشاد نبوی میں یہ ملتی ہے کہ وہی اصل دین ربانی اور صحیح ترین اسلام اور محبوب الٰہی دین ہے۔ اگرچہ تمام انبیاء و مرسلین یہی اسلام ودین و شریعت حقہ واحدہ اپنے اپنے زمانوں اور علاقوں میں لائے تھے مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے جامعیت عطا کی، ایسی جامعیت وہمہ گیری کہ مکی دورنبوی کےمعاصر سماوی مذاہب، یہودیت ونصرانیت وغیرہ کے علماء اکابر اور عوام و خواص دین ابراہیمی کی متابعت کا دم بھرتے تھے۔ معاصر آسمانی ادیان کے پیرووں اور عالموں کی بدعات و خرافات جیسی تحریفات کرنے والے عہد جاہلی کے عرب و قریش مکہ بھی پیروی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دعویدار تھے۔ ختم نبوت اور خاتم النبیین کا اختصاص بیت اللہ الحرام اور اولین بیت الٰہی کے شہر مکہ مکرمہ میں حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی نسل میں صرف ایک رسول کے مبعوث ہونے کے اظہارقرآنی اور اس کے روپ سروپ میں دعائےابراہیمی کی استجابت وقبولیت کا ظاہری اثبات ملتا ہے۔ اس سے صرف ایک رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد و ظہور مراد لی جاتی ہے۔ حقیقت میں