کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 71
نے اپنے ہونے والے پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص حفاظت کا تکوینی انتظام کیا تھا۔ امام ابن اسحاق جیسے متقدمین نے اسے توفیق الٰہی کا نام دیا ہے اور اسی کو بیشتر اہل علم وسیرت نے قبول کرلیا ہے جیسے شبلی وغیرہ جدید محققین سیرت نے لکھا ہے۔ کتبِ سیرت میں قدیم رواۃ کی ان روایات واخبار کو جمع کردیا جاتا ہے جن میں شریک اور مراسم شرک سے آپ کے قبل بعثت کے دور میں اجتناب وتنفر کا ذکر ملتا ہے۔ شبلی جیسے حقیقت بین سیرت نگاروں نے اس پر یہ خوبصورت اور قرارواقعی اضافہ کیا ہے کہ آپ کو ان مشاغل سے بھی محفوظ کیا گیا تھا تو جو آپ کی شان سے فروتر تھے۔ اس کے باوجود نبوی عصمت جیسی حفاظتِ الٰہی کا تصور ونظریہ اوراظہار واعلان ان کی تحقیقات ونگارشات میں نہیں پایاجاتا کہ آپ کلی طور سے ارتکا بات سے محفوظ ومعصوم تھے۔ بلاشبہ بعثت سے قبل کی حفاظت نبوی کوعصمت نبوی کا مقام مقدس ومحقق نہیں دیا جاسکتا، لیکن وہ اسی کا غیر اعلانیہ جزویا تکوینی نظامِ حفاظت تھا اور جو ہرعصمت بھی تھا۔ صنم پرستی، شرک کی دوسری مراسم، بتوں اوربت کدوں سے اجتناب، گانے بجانے کی محفلوں سے حفاظت، اولین قریشی تعمیر کعبہ کے وقت عریانی سے حفاظت، غیر ذبیحہ اور بتوں کے نام پر قربان کیے گئے جانوروں کے گوشت سے پرہیز، دوسرے حرام ومشتبہ کھانوں پینوں سے نفرت، شراب نوشی اور بدحالی وبے حیائی سے کامل بچاؤ وغیر ہ سے آپ کی قبل بعثت کی زندگی عبارت رہی اور نہ صرف محفوظ ومامون رہی بلکہ ان تمام حرام ومکروہ اور مشتبہ معاملات کے بالمقابل آپ کو حلال وطیب کی توفیق ارزانی ہوئی۔ اس توفیقِ خاص اور حفاظت تکوینی کی اندرونی لہروں اور غیر مرئی دھاروں اور الٰہی تدبیروں اورالہاموں نے ہی توا س زرہ پاکدامنی کو حفاظت بشکل عصمت کا درجہ دیا تھا۔ ٭ لڑکپن میں حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر میں تربیت وپرورش کے دوران اور مکہ مکرمہ میں اولین تعمیر کعبہ کے زمانے میں آپ نے چچا کے مشورے پرازارکھول کر شانوں پر رکھنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ کسی ان جان شخص نے دھکا دیا او رہدایت کی کہ عریانی سے بچیں اور ظاہری طور سے آپ پر غشی سی طاری ہوگئی۔ اسی عالم بے خبری میں