کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 66
حاکم بنانے پر وہ راضی ہوگئے۔ آپ نے جس حکمت ودانش اور متانت وعدالت سے فیصلہ کیا اس پر معمر وتجربہ کار ترین سادات واکابر قریش اش اش کر اٹھے اور اسے دل سے قبول کرلیا۔ اپنی ردائے مبارک شانوں سے اتاری، اپنے دونوں دست مبارک سے مقدس حجر اسود کو اس کے وسط میں رکھا اور تمام خاندانوں کے سربراہوں اور سرداروں کو ہدایت دی کہ اس کے کونوں اور کناروں کو پکڑ کر چادر کو مقام نصب تک لے جائیں۔ سب نے اسی پر بخوشی عمل کیا اور پھر دروازے کے پاس حجر اسود خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصب کردیا۔ اس واقعہ میں ظاہر ی واقعات وعوامل کا جتنا ہاتھ نظرآتاہے اس سے زیادہ تکوینی عوامل اور قدرتی زیریں لہروں کی کارسازی پائی جاتی ہے۔ واقعہ نصب حجر اسود کا اثر اور قریشی اکابر وسادات میں محمدی مرتبت ومنزلت کی تاثیر اور حکمت وفراست کا قلوب واذہان پر سکہ کس قدر جم گیا تھا اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ (43)۔
٭ قبل بعثت کے دور کا رگزاری وخدمت کاری کے محض اتنے ہی واقعات و حوادث نہ تھے، یہ تو چند متفرق واقعات وپراگندہ روایات ہیں۔ دوسرے سماجی معاملات قومی میں آپ کی شرکت مسلسل وتواتر تھی اور قومی خدمت وفلاح کے تمام کاموں میں نہ صرف پیہم تھی بلکہ قائدانہ بھی تھی۔ مختلف واقعات معاشرت میں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت کا ذکر روایات واخبار میں ملتا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احباب واعزہ کا ان سے قیاس کیا جاسکتاہے کہ آپ بھی شریک تھے۔ مثلاً حضرت خدیجہ بنت خویلد اسدی سے آپ کی شادی اور نکاح کے کھانے اور دعوت میں اعمام کے علاوہ حضرت ورقہ بن نوفل اسدی، ابوبکر صدیق، حکیم بن حزام اور بعض دوسرے اقارب طاہرہ کا ذکر صراحت کےساتھ اوراکابر قریش ومکہ کا عمومی طور سے ذکر کیاجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ نے ولیمہ بھی کیا تھا۔ اقارب واعزہ اور احباب واصدقاء کی شادیوں میں شرکت ایک سماجی قومی روایت تھی اور نکاح وولیمہ اوردوسری تقریبات مسرت کا اہتمام بھی مسلمات میں سے ہے۔ عزیزوں اور دوستوں اور پڑوسیوں کے گھروں میں کھانا، گوشت کے پارچے اور دوسرے ہدایا بھیجنے کا عام رواج تھا اور آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی