کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 65
کا قریشی قومی اکابرنے فیصلہ کیا تو سب نے اس میں شرکت کی۔ قریشی سالمیت واتحاد ویگانگت کا اندرونی جذبہ اور مدتوں سے اس کی کارفرمائی یہ رہی تھی کہ زیر تعمیر علاقے تمام بطون قریش کے لیے الگ الگ متعین کردئیے جاتے۔ اکابر وسادات خاندان اپنے نیک وپاک مال سے دیوار سازی اور عمارت طرازی کا کام کرتے اور لڑکے بالے ان کے لیے پتھر اور مٹی ڈھو ڈھو کر لاتے۔ اس پہلی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریب العمر چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب ہاشمی اور دوسرے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ اپنے شانوں پر اورکپڑوں میں پہاڑ سے پتھر لا کردئے(42)۔ ٭ دوسری عظیم الشان اور وسیع الجہات تعمیر کعبہ کا موقعہ 605ءمیں آپ کی بعثت سے پانچ سال قبل پیش آیا جب ازسر نوتعمیر کا ڈول ڈالا گیا۔ قریشی اکابر وسادات اور ان کی ملأ اعلیٰ کے فیصلہ کے مطابق پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ حلال کمائی اور سود وغیرہ سے پاک مال سے اس خانہ الٰہی کی تعمیر کی جائے۔ سب بطونِ قریش اور ان کے عوام وخواص نے خاص کر مالدار طبقات نےسرمایہ فراہم کیا۔ ذکروروایت ملے نہ ملے قریشی تاجر، صاحب خیر محمد بن عبداللہ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حصہ ڈالا۔ اپنے خاندان بزرگ تر، بنو عبد مناف، کے ساتھ اپنے حصہ تعمیر میں حصہ لیا اور بنیاد ابراہیم تک کھودنے اور قواعد ابراہیم پر تعمیر کرنے کے تمام مراحل میں کارگر حصہ لیا۔ بیت اللہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو حجر اسود کو اس کے مقام پر نصب کرنے کا مسئلہ تھا۔ ہرخاندان اس شرف خاص کو حاصل کرنے کے لیے بیتاب اور حکام فیصلہ کرنے سے قاصر تھے۔ روایت ضعیف ہے کہ جنگ وجدال کا خدشہ پیدا ہوا حالانکہ قریشی اکابر حدود حرم میں نہیں تلوار اٹھا سکتے تھے تو مسجد حرام میں کیا اٹھاتے۔ بہرحال اختلاف کا شور وشغف ہوا۔ اس لمحہ نازک میں ایک صاحب بصیرت اور قابل تعظیم سردار نے تجویز رکھی اور منوالی کہ یہ کارعظیم کل صبح تک کے ملتوی کردیاجائے اور صبح سب اکابر وسادات حرم میں جمع ہوں۔ اور جو شخص نوجوان صبح صادق خاص باب حضرم سے اول اول داخل ہو اس کو حاکم بنایا جائے۔ قضائے الٰہی سے محمد بن عبداللہ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص منتظرتھے اور الامین والصادق کو