کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 64
کر اپنے اعمام کو دینے کا معاملہ یا بادل نخواستہ شرکت کا قضیہ نہ تھا۔ حق وقوم کی حمایت و مدافعت کا فرض تھا جسے دیانتداری سے انجام دیا۔ (39)۔
٭ قریشی حلم وکرم اور نفوس قدسیہ کے عدل وانصاف اور صالح روایات قوم کے ترحم وخیر سگالی کے جذبات نے جوش کھایا تو چند خاندانوں کے اکابر وسادات نے حلف الفضول کا سنہری کارنامہ انجام دیا۔ کمزوروں، بیکسوں، مظلوموں اور غریب الدیار تاجروں کی فریاد رسی واعانت تو قلب محمدی میں جاگزیں تھی۔ آپ کے عم اکبر اور کفیل و مربی زبیر بن عبدالمطلب ہاشمی کی سعی وجہد مسلسل سے اور عبداللہ بن جدعان تیمی جیسے فیض رساں وعادل مزاج کی بدولت وہ معاہدہ وجود میں آگیا کہ آپ اس میں نہ صرف شریک رہے بلکہ اس کا نفاذ کرنے میں بھی کارنامے انجام دیے، قبل بعثت کےدور میں بھی اور بعدنبوت کےخیر القرون میں بھی اور اس کو مثالی قدم بتاتے تھے۔ شریک خاندانوں کےمتعدد نوجوانان قوم جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، آپ کے اعمام گرامی وغیرہ بھی اس قومی معاہدے اورحلفِ خیر وفضول میں شریک ومعاون رہے تھے۔ (40)۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احباب واصدقاء میں حضرات ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وحکیم بن حزام اسدی رضی اللہ عنہ اور متعدد دوسرے فتیانِ قریش کے ساتھ ملأ /مجلس قریش کے مناصب دار تھے۔ وہ دار الندوہ کی قومی مجلس میں برابر شرکت کرتے اور قوم ووطن کے مختلف سماجی، تجارتی، معاشی اور دینی ورفاہی معاملات میں معاونت وفلاح کا کام کرتے اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریشی ملأ کے مناصب میں سے کسی پر فائز نہ تھے کہ آپ کے سن رسیدہ وتجربہ کار اعمام وسادات ان پر موروثی طور سے تعینات تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سقایہ، رفادہ، حجابہ وغیرہ کے تمام مناصب فلاح وخدمت میں کارگر وموثر تعاون کیا اور ان کی خدمات صالحہ میں اپنی فطری معاونت کا حصہ ڈالا(41)۔
٭ قومی دینی خدمت ومعاونت کا سب سے بڑا، محبوب ترین اور قابل فخر واعزاز کا م بیت اللہ الحرام کی قریشی تعمیر وتزئین تھی جو دوبار پیش آئی۔ پہلی بار جب عمر شریف دس بارہ سال کی تھی۔ 582۔ 583۔ میں بوسیدہ خانہ کعبہ کی دیواروں کی تعمیر نو