کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 63
خاص کر بطون قریش کے شیوخ وروساء تمام قومی سماجی معاملات کےعلاوہ سیاہ وسفید کے مالک اور اذہان وقلوب پر حکمران تھے۔ ان کےافکار وخیالات اور فیصلوں بلکہ پسند وناپسند کے خلاف دوسرے درجہ کے شیوخ واکابر قریش مناصب داری کی عظمت کے باوجود نہیں جاسکتے تھے۔ عام وخاص نوجوانان قوم، فتیانِ قریش ومکہ، اور تمام دوسرے صاحبان عقل وخرد اپنی قومی قبائلی روایات کی پابندی کے ساتھ حکام اعلیٰ کی مرضی ومنشا کی بھی پاسداری کرتے۔ عظیم المرتبت اکابر وعمائد قوم اور ان کی پیروی میں منصب داران قریش وشیوخ بطون نوجوانوں کا خاص لحاظ کرتے اور ان میں سے ممتاز افراد کی تعظیم وتوقیر بھی کرتے تھے۔ قریش مکہ کا مشہور عالم اور قابل افتخار وتقلید حلم وکرم پورے سماجی نظام مکہ مکرمہ کی درستی، چابکدستی اور صحت کا ضامن اور اختلاف وفساد کو مانع تھا۔
اس قریشی مکی پس منظر میں حضرت محمد بن عبداللہ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبلِ بعثت دور کی سماجی زندگی اور کارکردگی کا مطالعہ وتجزیہ کرنے سے منظر نامہ واضح ہوتا ہے۔ آپ کی قریشی تجارتی سرگرمیوں میں شراکت اور معاشی واقتصادی نظام میں کارسازی وکارکردگی نے تجارت وکاروبار میں مسابقت وترقی کرنے کا موقع دیا۔ ذاتی خانگی زندگی میں عرب قومی اور دینی وسماجی روایات کے مطابق شادی بیاہ کے تعلقات استوار کرنے اور عائلی زندگی سنوارنے اور خاندان محمدی بنانے کی را ہ ہموار کی۔ فوجی سرگرمیوں کا زیادہ جوکھم قریش کے مثالی حلم وتحمل کےسبب نہیں اٹھانا پڑا کہ وہ جنگ و جدل اورقتال وغزوہ اور لڑائی بھڑائی کو حتی الامکان ٹالتے اور روکتے تھے۔ 591ء میں جب فجار کی جنگوں کا آخری معرکہ تمام کوششوں کے باوجود پیش آ ہی گیا تو قریش نے اپنے حریف قیس عیلان کے خلاف پوری فوجی طاقت جھونک دی۔ ویسے بھی قریش مکہ کی سیاسی طاقت، فوجی قوت، حربی تکنیک وصلاحیت، سماجی اتحاد، تجارتی ومعاشی دولت اور دینی سیادت سب عرب قبائل تسلیم کرتے تھے۔ اس ناگزیر معرکہ جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قومی سالار اعلیٰ حرب بن امیہ اموی کے تحت اپنے خاندانی امیروں کی کمان وسالاری میں جنگ وقتال کا فرض انجام دیا۔ وہ محض تیروں کو اٹھا اٹھا