کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 60
حضرت شاہ اور دوسرے مفکرین ومومنین کی پس بینی ہے کہ وہ بعد کی سرفرازی رسالت کے آئینہ میں شمائل وخصائل نبوی کا مطالعہ وتجزیہ کررہے ہیں۔ البتہ وہ تکوینی مشیت و تاریخی زیریں دھاروں کی کارسازی کے عمل وکردار سے حجاب ظاہر اٹھانے کی ایک صحیح کوشش ضرور ہے اور اس کی تصدیق شواہد سے ہوتی ہے۔ خصائل وصفات عالیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صفات الامین والصادق کا بڑا چرچا کیاجاتا ہے حالانکہ وہ عرب جاہلی معاشرے میں دونوں مسلمہ اوصاف کاملین تھے۔ اہم تربات یہ ہے کہ مرد صالح وفاضل کو الکامل سے بھی اس دور جاہلیت میں موصوف کیا جاتاتھا اور متعدد کاملین بھی تھے اورعادل وعدل اور سخی ومخیر بھی تھے۔ حضرت خدیجہ اسدی نے وحی ربانی خاص کر تنزیل قرآنی کےبعد آپ کے خدشات ِ نفس دور کرنے کی خاطر آپ کی صفات عالیہ کا ذکر کیا تھا جو صفاتی پیکر تراشی کی ایک صورت ہے: ((كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ)) حدیث بخاری:3 کی شرح فتح الباری وغیرہ میں آپ کی ان صفات عالیہ پر اور اضافات حسنہ بھی ملتے ہیں اور مزید کا اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ خصائل محمدی کادائرہ وظرف وسیع ترین تھا۔ بالکل یہی صفات عالیہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیخ قارہ ابن الدغنہ نے حدیث بخاری:3905 کے مطابق کہےتھے اور ان کے وجود کو قریش مکہ کے لیے مفید اور باعثِ خیر قراردیا تھا کہ ایسا صاحب صفات وکمالات شخص وطن سے صرف دین و مذہب کے اختلاف کی بنا پر نکالا نہیں جاسکتا اور قریش نے اسے تسلیم کیا تھا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے شارحین نے ان دونوں کا ملانِ عرب اور فتیان ِ قریش کے مواز نے میں نکتہ کی بات یہ کہی ہے کہ محمدی خصائل درجہ اکملیت میں تھے۔ آپ کی صلہ رحمی، اقرباء واعزہ سے حسن سلوک، عام لوگوں سے احسان واکرام، مساکین کے اطعام اور فقراء ودرماندہ کی بندہ پروری کی روایات بھی ہیں۔ حسنِ کلام، لینت فطرت، تحمل و بردباری، خشونت وکدورت سے محفوظیت، خلق عظیم سے مجموعی طور سے آراستگی کی