کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 6
ندوی، جامعی اور علیگ ہیں۔ قدیم اسلامی علوم اور جدید عصری فنون کی تعلیم وتربیت ندوۃ العلماء لکھنو، لکھنو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پائی۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء سے ڈاکٹر صاحب نے باقاعدہ درس نظامی کا کورس مکمل کرکے سند فراغت حاصل کی۔ یہاں آپ کےا ساتذہ میں عالم اسلام کے عظیم رہنما اور مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ اور مولانا محمد رابع حسنی ندوی ایسی شخصیات رہی ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بھی بھرپور فیض پایا، عصری تعلیم زیادہ تر آپ نے مسلم یونیورسٹی سےحاصل کی۔ سیرت وکردار، ذہن وقلب اور فہم وادراک کا بنیادی مواد مدارس وجامعات نے فراہم کیا مگرا صل تعمیر وتشکیل کا کارنامہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انجام دیا۔ پروفیسر، صدر شعبہ، ڈائریکٹر، ڈین اور دوسرے علمی اور انتظامی مناصب نے دنیاوی وجاہت عطا کی لیکن ان کا اصل سرمایہ علم و وقار ان کا طالب علمانہ کردار ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آپ نے 1970ء میں شعبہ تاریخ میں بطور ریسرچ اسسٹنٹ اپنے تدریسی سفر کا آغاز کیا اور آپ کی خدمات کے اعتراف میں 1991ء میں آپ کو پروفیسرکا عہدہ پیش کیاگیا۔ 1997، 1998ء اور 2000ء میں آپ بطور ڈائریکٹر ادارہ علوم اسلامیہ کےذیلی ادارے شاہ ولی اللہ ریسرچ سیل کے ڈائریکٹر بنادئیےگئے۔ آپ نے یہاں دس قومی وبین الاقوامی سیمینار منعقد کروائے۔ سیرت نگاری میں آپ کی نگارشات درحقیقت آپ کے والد محترم کی آرزو اور تمنا کی تکمیل تھی۔ وہ آپ سےفرمایا کرتےتھے کہ ہم نے تمہیں اس لیے تھوڑا ہی پڑھایاتھا کہ تم بادشاہوں کے قصے لکھتے رہو۔ ہم نے توتمہیں اس لیے پڑھایاتھا کہ تم