کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 58
کی تجارتی عبقریت، کاروباری سوجھ، بوجھ اور ایمانداری بھاگئی۔ کاروبار وتجارت کے جہاں پیچاک وپیچیدہ میں کاروباری اور تجارتی مہارت کی جتنی اور جس قدر اہمیت ہے اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ امانت ودیانت کی ہے۔ کاروباری اشتراک ومفاہمت نے عظیم ترین نوجوان بنی ہاشم کی دوسری خوبیوں اور صفات ِ حسنہ سے آگاہی نے حضرت خدیجہ اسدی رضی اللہ عنہا کو آپ سے نکاح پر آمادہ کیا۔ اعمام نبوی کی سلسلہ جنبانی، آپ کی رضا مندی اور حضرت خدیجہ کی چاہت اور دوسرے اعزہ واقرباء کی خوشنودی سے دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ سماجی اور دینی اورتہذیبی لحاظ سے حضرت خدیجہ سے نکاح وزواج نبوی کی بڑی اہم اور معنی خیز اور دور رس نتائج کی حامل جہات ہیں جن پر روایات میں توجہ کم ہوتی ہے۔
٭ اول:ایک پچیس سالہ جوان رعنا کی ایک چالیس سالہ پختہ عمر کی خاتون سے شادی عرب قریش اور حنیفی روایات کے عین مطابق تھی۔
٭ دوم:دوبار کی بیوہ خاتون سے شادی بھی حیرت انگیز نہ تھی کہ قریشی وعرب معاشرے میں طلاق وبیوگی کے بعد ایک سے زیادہ بار شادیوں کا رواج تھا۔
٭ سوم:حضرت خدیجہ اسدی اپنے دو سابقہ شوہروں کی تین چار اولاد کو کاشانہ محمدی میں ساتھ لائی تھیں اور وہ ربیب نبوی بنے تھے۔ یہ بھی قدیم روایت تھی۔
٭ چہارم: خاندانی اور نسبی اعتبار سے سماجی منزلت ومقام سے کفو کا معاملہ تھا مگر معاشی ومالی لحاظ سے ایک ابھرتے تاجر کی مسلمہ تجارت کار سے شادی تھی۔
٭ پنجم: شادی کے بعد دونوں میاں بیوی، زوجین، کاتجارتی رشتہ بدلا جیسے زوجہ محترمہ کے اولین دو سابق شوہروں کے معاملے میں بدلاتھا۔
٭ ششم:اب وہ ایک خاندان کی مشترکہ تجارت تھی جس میں میاں بیوی دونوں برابر کے شریک تھے اگرچہ مال وکارواں زوجہ گرامی کا تھا۔
٭ ہفتم: پچیس سال کی عمر مبارک سے چالیس برسوں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مشترکہ تجارت کے شریک کارگزار تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا صاحبہ مال ومنافع۔