کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 57
تجارت کی وضاحت کرتی ہیں کہ نوجوانان قریش بطور تجارتی گماشتہ بڑے تاجران وقت کا مال لے جاتے۔ گماشتوں کی محنت کا معاوضہ پہلے ہی متعین کردیا جاتا جو نقد ہوتا یا بالعموم جنس کی شکل میں ادا کیا جاتا۔ اونٹ اونٹنی تجارتی جنس کی سب سے قیمتی شے تھی۔ دوسرے مکی قریشی تاجروں کے مال سے تجارت نبوی کی شہرت پھیلی تو قریش مکہ کی سب سے مالدار اوروسیع ترین تجارت کی مالک حضرت خدیجہ کی توجہ مبذول ہوئی۔ قریش کے خاندان بنو اسد کی”طاہرہ“ خدیجہ بنت خویلد اسدی کی مثالی مالداری اور غیر معمولی تجارتی وسعت ایک واقعہ سیرت ضرور ہے، لیکن ابھی تک جامع تحقیق کا طالب ہے۔ حیرت ناک امر یہ ہے کہ جاہلی عرب میں ایک خاتون خانہ نے اتنی تجارتی قدرو قیمت کیسے حاصل کی کہ بسا اوقات ان کا کاروبار تجارت اکابر قریش کے تمام کاروانوں کی مجموعی مالیت سے زیادہ سامان تجارت رکھتاتھا اور ان کے قیم تجارت، گماشتے، مضارب واجیران کے اپنے بھتیجے حکیم بن حزام اسدی اور غلاموں کے علاوہ متعدد شرکاء تجارت ہوتے تھے اور سب کے سب قریشی خاندانوں کے مقتدرونامور تجار ہوتے تھے اور ان کے کارواں مسلسل ومتواتر اسواق عرب اور شام ویمن جاتے رہتے تھے۔ حضرت خدیجہ اسدی رضی اللہ عنہا کے پہلے دوشوہر عتیق بن عائذ مخزومی اور ابو ہالہ تمیمی بھی پہلے گماشتے تھے۔ پھر شادی کے بعد قیم وشریک تجارت ہوئے۔ حضرت محمد بن عبداللہ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دوسرے متعدد تجارتی گماشتوں کے ساتھ دبا، تیما حباشہ، جرش وغیرہ کے بازاروں میں ان کے مال سے تجارت کرتے اور معاوضہ پاتے۔ ایک مدت کے بعد آپ ان کے شامی کارواں میں ان کے قیم حضرت حکیم بن حزام اسدی رضی اللہ عنہ اور غلام میسرہ کے ساتھ مال لے گئے اور اس کے بعد دو ایک اور شامی کاروانوں میں شرکت کی اور اپنی ہنرمندی کا سکہ جمایا۔
ازدواجی/سماجی زندگی کے تجربات
طاہرہ قریش اور مالکہ تجارت شامی ومکی کو حضرت محمد بن عبداللہ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم