کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 54
کرانا، صلہ رحمی اور عزیز داری کا درس دینا، سفر کی مشقتوں کا خوگر بنانا، آنے والے دور عروج وکمال کا مقام عالی دکھانا اور زندگی اور گزر بسر کے آداب سکھانا تھا کہ شخصیت میں استحکام آئے۔ یثرب کے لڑکپن کے تجربات شخصی اور محبت ومروت کے واقعات خاندانی تازندگی یادداشت محمدی میں ثبت ہوگئے، جس طرح جد امجد کی محبت دل میں نقش ہوگئی تھی۔ قضائے الٰہی سے واپسی کے سفر میں والدہ ماجدہ نے مقام ابواء پرداغ مفارقت دیا اور اپنی محبت وتربیت وکفالت کا باقی ماندہ کام بھی دادا کےسپرد کردیا۔ بقیہ دو برسوں میں جدی محبت نے آپ کو ابن عبدالمطلب کا نام دے دیا کہ شناخت نامہ وہی بن گیا۔ عمر نبوی آٹھ برس کو پہنچی تو دادا نے رخت سفر باندھا۔ شیخ قریش وعظیم بنی عبدمناف اور سید مکہ کا جنازہ اٹھا تو کمسن وبلند اقبال پوتا سریرمیت کے پیچھے پیچھے اپنے محبوب دادا کے جنازے پر آنسوؤں کے پھول چڑھا رہاتھا۔ عبدالمطلب ہاشمی کی آٹھ سالہ رفاقت وکفالت اورآدم گری نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ ہاشمی کی زندگی سنواری اور سیرت سدھاردی اور بوقت رخصت خاص انتظام بھی کیا۔ (32)۔ اعمام حقیقی کی پرورش وپرداخت متعدد اعمام وعمات میں دو حقیقی چچا زبیر بن عبدالمطلب وابوطالب بن عبدالمطلب خاص کفیلان نبوی کی خدمت ومرتبت سے مرحوم والد گرامی کی وصیت و نصیحت کی بنا پر سرفراز ہوئے اور دوسرے اعمام وعمات نے اپنے حصہ وظرف کی وسعت کے مطابق کفالت اور دیکھ ریکھ کی محبت بھری ذمہ داری نبھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام پھوپھیوں، چچاؤں اور ان کے بڑی عمر کے فرزندوں اور دختروں یعنی ابناء وبناتِ عم کے چہیتے تھے اور سب جان ومال نچھاور کرتے تھے۔ روایت پرستوں نے اپنے تنگ ظرف ونظر کے سبب محبت وکفالت محمدی کو تنگ شخصی دائرے میں محدود کردیا اور احوال واقداروآداب وروایات کو بھلادیا۔ عرب روایات کفالت وصلہ رحمی اور خاص بنو عبد مناف اور ان میں بھی بنو عبدالمطلب کی مثالی مروت ومحبت، حلم وبردباری اور