کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 53
عزیز واقارب کی دیکھ ریکھ اور خاطر داری وتواضع جدی کمال کا پرتوتھی۔ تین سالہ شبانہ روز کی غیر معمولی تربیت اور بیکراں نگہداشت کا مظہر تپاں یہ تھا کہ دادا اپنے محبوب وبلند اقبال پوتے کو کسی وقت اور کسی حال میں تنہا نہ چھوڑتے۔ آپ کو ساتھ کھلاتے پلاتے، ساتھ سلاتے، ہردم ساتھ رکھتے، ذرا دیر کے لیے آنکھ سے اوجھل ہوتے تو بیقرار ہوجاتے اور گماشتوں سے تلاش کرواتے۔ ایک آدھ بار گھریلو مویشیوں یا اونٹوں کی تلاش میں خود بھیجا اور واپسی میں تاخیر ہوئی تو تلا ش کروانے والوں کے ذریعے تلاش کرواکے دم لیا اور تنہا نہ چھوڑنے کی قسم کھالی۔ عبدالمطلب ہاشمی قریش کے شیخ اکبر، خاندان بنو عبد مناف کے سرخیل اور دولتِ دنیا ودین کے حامل اور صاحب و جاہت وجاہ اور رعب داب والے شخص تھے۔ مسجد حرام کے صحن میں خانہ کعبہ کے زیر سایہ یعنی رب ذوالجلال کے بیت عزوشرف کے پاس ان کی مسند عالی تمام اکابر قریش کی مسندوں سے عظیم ترتھی۔ رعب وجلال کا یہ عالم اور توقیر وتکریم کا یہ انداز کہ ان کے اپنے صلبی فرزند اور عزیز از جان بیٹے اس پر قدم نہ دھر سکتے مگر بلند اقبال چہیتے پوتے کو جلو س فرما ہونے کا شرف حاصل تھا، کوئی عزت واکرام کا مارا آپ کو روکتا تو جد امجد اور شیخ وقت بیقرار ہوکر اسے منع کرتے اور آپ کو اپنی مسند خاص پر اپنے پہلو میں بٹھاتے۔ وہ صرف مُول سے زیادہ سود کے پیارے ہونے کا معاملہ اور فطری محبت اور دریتیم کی خاص کفالت کا مسئلہ نہ تھا بلکہ روشن ضمیر دادا صاحب کمال پوتے کو پہچانتا تھا۔ اسی بنا پر قحط وخشک سالی کی سخت ابتلا میں جد امجد نے کوہ مکہ کی بلندی پر باران رحمت کی دعارب ذوالمنن کے دربار میں کی تو پوتے کا وسیلہ اختیار کیا۔ شفیق وحامی اور حقیقی عم مکرم ابوطالب ہاشمی نے اس منظر محبت ورافت اورواقعہ وسیلت ودعا کو اپنے قصیدہ میں دعا کی قبولیت کے منظر نامے کے ساتھ محفوظ کردیا۔ جدی پرورش وپرداخت اور ہرآن نگاہ قلب ونظر میں رکھنے کا ایک شاخسانہ تھا کہ یثرب کے اپنے اخوال(ننہال) کی سالانہ زیارت کو حسب معمول گئے تو چہیتے پوتے کو آپ کی ماں اور انا حضرت ام ایمن کے ہمراہ اپنے خاص کارواں میں لے گئے۔ مقصد ننہالی عزیز ان یثرب سے ملاقات