کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 38
قوانین واصول وقواعد بناتا ہے۔ دوسرے شریعت اسلامی کا تسلسل وتواتر اسی طرح فراموش کردیا جاتا ہے۔ شرائع اسلامی کی اصطلاح اسی طرح گمراہ کن ہے جس طرح ادیان سماوی کا ایک ضمنی خیال فاسد۔ یہ بھی قصور وارذہنوں اور کج فہم دماغوں میں پیدا ہوا کہ دین و مذاہب میں مماثلت ویکسانیت تھی مگر شرائع میں اختلاف کثیر تھا۔ قدیم امامان تفسیر وحدیث وسیرت اور متاخر علماء اسلام اور مفکرین میں ابن کثیر، شاطبی، شاہ ولی اللہ دہلوی وغیرہ نے خاص طور سے غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور ان مقبول ومشہور اقوال صحابہ و سلف کی نسبت پر نکیر کی جو واقفیت اور روح اسلام اور صریح تصریحات کتاب وحدیث کے منافی ہیں۔ مثلاً امام بدر الدین زرکشی(م794/1392) نے اپنی سند سے امام عروہ بن زبیر اسدی کا ایک قول نقل کیا ہے کہ قرآن کا جو حکم حد یا فریضہ سے متعلق ہو وہ مدینہ میں نازل ہوا اور جس کا تعلق امتوں کے احوال اور عذاب وثواب سے ہو وہ مکہ میں نازل کیاگیا۔ یہ خیال عام ہے اور اس کی نسبت سراسر مشکوک ہے۔ امام عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جیسا صاحب علم وفضل، ماہر قرآنیات وحدیثیات اور صاحب سیرت وتاریخ ایسے اقوال فاسدہ وخیالات زائدہ کے بانی نہیں ہوسکتا۔ المیہ یہ ہے کہ تمام تر علماء کرام ومفکرین امت اور صاحبان سیرت ایسے اقوال کو آیات وحی اور ارشادات نبوی کا درجہ دے کر قبول کرتے ہیں۔ احکام وقوانین اسلام، ضوابط وتعزیرات معاشرہ اور متعدد دوسرے شرائع اسلام و دین عربوں میں خاص کر قریش مکہ دین حنیفی کے زیر اثر رائج تھے۔ مکی صورتوں کی آیات کریمہ کے صحیح تناظر اسلامی میں تفہیم وافہام اور اطلاقی سیرت وشریعت میں منصفانہ تشریح وتعبیر کی جاتی تو کج فہمی راہ نہ پاتی۔ بیشتر سورتوں کے مکی دور میں نزول کا واقعہ ہی یہ حقیقت ثابت کرتا ہے کہ اصل اسلام اور اصل شریعت اور اصل دین اسی دور تعمیر وتشکیل کا ہے۔ بقول امامانِ وفقیہان امت شاطبی وولی اللہ پور ا اسلام اور تمام ترشریعت اور سارا کاسارا دین مکی دور رسالت میں عطا کرکے محکم کردیا گیا تھا۔ مدنی دورحیات وخدمات میں ان قواعد البیت پراضافات وتعمیرات بلند کا کام کیا گیا اور ان میں سے ہر ایک حکم وقانون وشرع کی اصل اصیل مکی ہے۔ (20)